کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 19
1. غلط ہوسکتی ہے۔ 2. وہ جھوٹ اور افترا ہوسکتی ہے۔[1] 3. وہ کسی راوی کا وہم ہوسکتی ہے۔ تو اہل اشراق کو چاہیے کہ وہ ایک ہی مضمون کو اپنےماہنامہ میں بیسیوں بار شائع کریں تب اس کو قابل التفات سمجھا جائے، ورنہ وہ ایک آدمی کی خبر(خبر واحد) ہوگی جس میں جھوٹ اور افترا نیز وہم و غلطی کا امکان باقی رہے گا۔ حجیتِ خبر واحد قرآنِ کریم سے منکرین حدیث کے نزدیک قرآن کریم کا ثبوت متواتر ہے اور یہ علم کا فائدہ دیتا ہے اور قرآن کریم بھی خبر واحد کے حجت ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ مصر میں فرعون اور اس کے حواری حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل کا منصوبہ بنا رہے تھے تو ایک آدمی نے آکر موسیٰ علیہ السلام کو یہ خبر دی کہ اے موسیٰ علیہ السلام ! تیرےقتل کے منصوبے بن رہے ہیں لہٰذا یہاں سے جان بچا کر نکل جائیں ۔ قرآنِ کریم اس خبر واحد کو یوں ذکر کرتا ہے: ﴿ وَ جَآءَ رَجُلٌ مِّنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ يَسْعٰى ١ قَالَ يٰمُوْسٰۤى اِنَّ الْمَلَاَ يَاْتَمِرُوْنَ بِكَ لِيَقْتُلُوْكَ فَاخْرُجْ اِنِّيْ لَكَ مِنَ النّٰصِحِيْنَ 20۝فَخَرَجَ مِنْهَا خَآىِٕفًا يَّتَرَقَّبُ١ قَالَ رَبِّ نَجِّنِيْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ. 21۝﴾[2] اس ایک آدمی کی خبر کا اعتبار کرتے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام وہاں سے نکل کھڑے ہوئے، لیکن اگر وہ یہ کہتے کہ یہ تو خبر واحد ہے جو ظنی ہے اور جو چیز ظن ہو ،اس میں اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ وہ 1. غلط ہوسکتی ہے۔ 2. وہ جھوٹ اور افترا ہوسکتی ہے۔
[1] ماہنامہ ’اشراق‘ لاہور: ص36 ... جولائی2012ء [2] سورۃ القصص:20، 21