کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 18
حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ علامہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے الإحکام میں خبر واحد کی حجیت پر تفصیلی بحث کی ہے او رمنکرین کو طرح طرح سے حق کی طرف لانے کی کوشش کی ہے، ہم ان کی ایک جامع اور مختصر عبارت نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں جو اخبارِ آحاد کے شرعاً حجت ہونے پردلالت کرتی ہے ، وہ فرماتے ہیں : إن خبر الواحد العدل عن مثله إلىٰ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم یوجب العلم والعمل معًا و بهٰذا نقول [1] یعنی’’ ہم اس بات کے قائل ہیں کہ عادل ثقہ کی خبر واحد جو وہ اپنے جیسے عادل و ثقہ راوی سے بیان کرےاو راسی طرح سارا سلسلہ اسناد رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہو تو ایسی خبر واحد علم یقین کا فائدہ دیتی ہے او راس پر عمل کرنا فرض ہے۔‘‘ سلف و خلف کا عمل اخبارِ آحاد کی حجیت پر رہا ہے، صحابہ و تابعین رحمۃ اللہ علیہم و تبع تابعین، ائمہ کرام اور محدثین عظام کےاَدوار میں جب بھی کوئی سائل کسی صاحبِ علم سے کسی مسئلہ کے بارے میں دریافت کرتا تھا تو اس عالم کے جواب پر مطمئن ہوکر عمل پیرا ہوجاتاتھا، اس جواب کو حدِتواتر تک پہنچانے کے لیے کبھی کسی سائل نے دیگر تمام اہل علم سے دریافت کرنے کی زحمت نہیں کی۔ دورِ حاضر میں بھی ایک آدمی کی خبر کا اس کی عدالت و ثقاہت کے پیش نظر اعتبار کیا جاتا ہے، رسائل و جرائد میں ایک ہی مضمون نگار کےلکھے ہوئے مضمون کو قبول کیا جاتا ہے او رایک ہی لیکچرار کے لیکچر کو معتبر سمجھا جاتا ہے۔ دنیا میں آنے والا ہر انسان خبر واحد کی بنیاد پر ہی اپنے والد (باپ) کو یقین کے ساتھ جانتا اور مانتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خبر واحد سے ثابت ہونے والے باپ کی موت پر اُس کے ورثا کے لئے احکامِ وراثت مرتب کیے ہیں ۔ لیکن منکرین حدیث کو اگر اس بات پر ہی اصرار ہے کہ خبر واحد ظن کا فائدہ دیتی ہے اور جو چیز ظن ہے اس میں اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ وہ
[1] الإحکام شرح أصول الأحکام : 115