کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 15
استدلال کرنے کے قائل تھے۔ ان کی تصنیف موطا امام مالک میں مرسل احادیث کوبکثرت ذکر کیا گیا اور ان سے استدلال کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ جب امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں زبردستی لی گئی طلاق کا مسئلہ پیدا ہوا تھا تو امام صاحب نے طلاق المکره غیر جائز یعنی زبردستی لی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی، کو دلیل بنایا تھا جو کہ خبر واحد ہے او رموطا میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے خبر واحد کوبطور دلیل قبول کیا ہے جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سےمروی ہے: بینما الناس بقباء في صلوٰة الصبح إذ جاءهم اٰتٍ فقال إن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم قد أنزل علیه اللیلة قرآن وقد أمر أن یستقبل الکعبة فاستقبلوها وکانت وجوههم إلىٰ الشام فاستداروا إلىٰ الکعبة[1] ’’ قبا والے فجر کی نماز بیتُ المقدس کی طرف متوجہ ہوکر پڑھ رہے تھے کہ ایک آنے والےنے آکر اُنہیں بتایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوچکا ہے اور آپ کو خانہ کعبہ کی طرف متوجہ ہوکر نماز پڑھنےکا حکم دے دیا گیا ہے لہٰذا تم بھی کعبہ کی طرف منہ کرلو، جبکہ ان کے چہرے سے شام (یعنی بیت المقدس)کی طرف تھے تو (وہ ایک آدمی کے خبر دینے سےبیت المقدس سے)بیت اللہ (خانہ کعبہ)کی طرف متوجہ ہوگئے۔‘‘ رہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ تو وہ تو خبر واحد کی حجیّت پر اس کےمنکروں سے مناظرے کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ ان کی عظیم تصنیف’الرسالہ‘ میں اس موضوع پر خبرواحد کےمنکر سے اُن کے دلچسپ مناظرے کاتفصیل سے ذکرملتا ہے۔بلکہ امام صاحب نے’الرسالہ‘ میں یہ عنوان قائم کیا ہے: الحجة في تثبـیت خبر الواحد ... اس کے بعد فرماتے ہیں : فإن قال قائل: أذکر الحجة في تثبیت خبر الواحد بنصّ خبر أو دلالة فیه أو إجماع، فقلت له أخبرنا سفیان عن عبد الملك بن عمیر عن عبد الرحمٰن بن عبد اللّٰه بن مسعود عن أبیه أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم
[1] الموطا :1/128