کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 14
’’ مجھے مذی بکثرت آتی تھی، چونکہ میرے گھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی (سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ) تھیں ، اس لیے میں نے ایک آدمی سے کہا کہ وہ اس (مذی) کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرے۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کےمتعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ’’مذی آنے سےشرمگاہ کو دھوکر وضو کرلیا کریں ۔‘‘ (یعنی یہی کافی ہے، اس سے غسل کرنےکی ضرورت نہیں ہے) سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کے بتانے پراعتماد کرتے ہوئے اس کی خبر کو قبول کیا جو اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی تھی۔ دورِ تابعین رحمۃ اللہ علیہم تابعین کرام رحمۃ اللہ علیہم کی بھی خبر واحد کو قبول کرنے میں کوئی خاص شرطیں نہیں تھیں او رنہ ہی اُن میں سے کسی نے حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم (خبر واحد) کو قبول کرنے کے لیے دو یا دو سے زائد راویوں کی شرط لگائی ہے بلکہ وہ ہر ثقہ راوی سے حدیث اخذ کرتے تھے۔ایک دفعہ سلیمان بن موسیٰ، طاؤس تابعی سےملے او رکہا کہ مجھے فلاں آدمی نےفلاں حدیث بیان کی ہے، کیا قبول کروں ؟ تو طاؤس نے کہا: إن کان صاحبك مليئًا فخذ عنه ’’اگر تووہ ثقہ ہے تو قبول کرو۔‘‘ ائمہ أربعہ اور حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم (خبرواحد) امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ حدیث و سنّت سے استدلال میں بڑے سخت تھے یہاں تک کہ وہ ثقہ راویوں کی روایت کردہ مرسل روایات کو بھی حجّت مانتے تھے۔حالانکہ مرسل روایت محدثین کرام کےہاں ضعیف کی اقسام سے شمار ہوتی ہے، لیکن امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ مرسلات کو بھی دلیل مانتے تھے، توصحیح اورثابت اخبارِ آحاد کا وہ انکار کیونکر کرسکتے ہیں ، اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ فقہ حنفی کےمستدلات میں اخبارِ آحاد کو مسائل کی دلیل بنایا جاتا ہے، حالانکہ ان میں سے بعض اخبار آحاد ضعیف بھی ہوتی ہیں ۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بھی اخبارِ آحاد کو حجت مانتےتھے حتیٰ کہ وہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرح مرسلات سے