کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 13
صحت کی جانچ پڑتال کرکے اُن کی صحت ثابت ہونےکے بعد ہی اُنہیں قبول کیا ہے۔ سواے منکرین حدیث کے اُمّتِ مسلمہ میں سے کسی صاحبِ علم نے کسی حدیث کے خبر واحد ہونےکی وجہ سے کبھی اسے ردّ نہیں کیا۔ دور ِعثمانی رضی اللہ عنہ خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی خبرواحد کی حجیت مسلّم تھی او راس کی روشنی میں لوگوں کے مسائل نمٹائے جاتے تھے، خود حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خبر واحد کو قبول کرتے تھے، اور جب اُنہیں خبر واحد (حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ) پہنچ جاتی تو اُسے فیصلہ کن قرار دیتے اور اس کےمقابلہ میں اپنی رائے کو قربان کردیا کرتے تھے۔ مثال کےطور پر آپ کی رائے یہ تھی کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے، وہ جہاں چاہے، وہاں رہ کر عدتِ وفات پوری کرسکتی ہے، لیکن جب سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی بہن حضرت فریعہ بنتِ مالک نے بتایا کہ میرے خاوند کی وفات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خاوند کے چھوڑےہوئے گھر میں رہ کر عدت گزارنے کا حکم دیا تھا تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس خبر واحد کو قبول کیا اور یہ حدیث سن کر اُنہوں نے اپنی رائے کوخبر کوخير باد کہہ دیا اور فیصلہ کردیاکہ فوت شدہ خاوند والی عورت اسی گھر میں رہ کر عدت پوری کرے جس میں وہ خاوند کی زندگی میں رہائش پذیر تھی۔[1] سیدناعلی رضی اللہ عنہ کا دور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرح خبر واحد کو حجّتِ شرعیہ تسلیم کرتے تھے اورجب انہیں کوئی شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کردیتا تو اس پر اعتماد کرتے ہوئے خبر واحد کو قبول کرتے تھے۔جیسا کہ بخاری شریف میں ہے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ خود بیان کرتے ہیں : كنتُ رجلا مذّاء فأمرتُ رجلا أن يسأل النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم لمكان ابنته فسأل فقال: ((توضأ واغسل ذَكرك)) [2]
[1] سنن ترمذی:رقم 1204 [2] صحيح بخاری مع الفتح :1/379