کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 12
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:جب تم میں سے کسی شخص کو تین مرتبہ اجازت طلب کرنے کے باوجود اجازت نہ ملے تو اسے واپس ہوجانا چاہیے، تو یہ حدیث سن کر سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا: اس حدیث پر کوئی گواہ پیش کرو جس نے آپ کےساتھ اس حدیث کو سنا ہو تو سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ہم سے کہا: کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص ہے جس نے میری طرح اس حدیث کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سےسنا ہو؟ تو اہل مجلس میں سے حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس حدیث کو تو ہم میں سب سے چھوٹی عمر والا (یعنی ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ) بھی جانتا ہے، تو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کےساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور جاکر ان سے کہا کہ واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے۔‘‘ منکرین حدیث کاایک ٹولہ اس حدیث کو خبر واحد کی حجیّت کے خلاف دلیل کےطو رپر پیش کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ اگر خبر واحد شرعی اعتبار سے حجت ہوتی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس پر گو اہ طلب نہ کرتے ،لیکن یہ لوگ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ گواہ کی گواہی کے باوجود بھی یہ حدیث خبر واحد ہی رہتی ہے جسے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نےقبول کیا ہےلہٰذا یہ حدیث یعنی خبرواحد کو قبول کرنے کی دلیل ہے او رحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا شاہد کا طلب کرنا صرف ثبوتِ حدیث کی تحقیق کے لیے تھا۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: لاتکن عذابًا علىٰ أصحاب رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فقال: سبحان اللّٰه إنما سمعتُ شیئا فأحببت أن اتثبت [1] ’’اےعمر رضی اللہ عنہ ! آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر عذاب نہ بنیں تو آپ نے از راہِ تعجب فرمایا : سبحان اللہ! میں نے ایک بات سنی اور چاہا کہ اس کی صحت کی تحقیق کرلوں ؟‘‘ یعنی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا گواہ طلب کرنا صحّتِ حدیث جانچنے کے لیے تھا او رکسی بھی حدیث کی صحت کو پرکھنے کا آج بھی کوئی شخص انکار نہیں کرتا،محدثین کرام نے ہر لحاظ سے احادیث کی
[1] فتح الباری :11/30