کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 112
دے رہے ہیں تو ہمیں اعتراض کا کیا حق ہے۔کٹّر سے کٹر روایتی گھرانوں او رملکوں میں دائرہ کار کی تخصیص ختم ہوچکی ہے۔دنیا کی موجودہ اقتصادی صورتِ حال میں کسی ملک کی نصف آبادی کو زندگی کے تمام میدانوں میں شریک ہونے سے روک دیا جائے تو ترقی کیسے ہوگی؟ دونوں کےمل کر کام کرنے سےہوگی۔‘‘[1]
ویسے بھی وہ چہرے کے پردے کے قائل ہی نہیں ۔چنانچہ صفحہ 120 کے آخر میں لکھتے ہیں کہ’’ چہرہ کا پردہ کتاب و سنت سےثابت نہیں ۔‘‘
اس طرح یہ کتاب عربی لغت اور گرامر کے پردے میں عورت کے بارے میں پورا مغربی ایجنڈا مسلمانوں میں قرآن کے نام پر رائج کرنے میں کوشاں نظر آتی ہے۔اگر اپوائی بیگمات یا این جی اوز اسلام کے خاندانی او رتمدنی و معاشرتی مسائل کے بارے میں بات کریں تو سب کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ غلط مسائل مسلم معاشرے میں پھیلائے جارہے ہیں ۔مگر گھمبیر مسئلہ تو اس وقت بنتا ہے جب نام نہاد علما و فاضلین حضرات اپنے علم و فضل کے زعم میں،عربی لغت کے زور پر اپنی چرب زبانی کی بنیاد پر وہی کام کرتے نظر آتے ہیں جو اہل مغرب کومطلوب ہےتو پھر یہ تلبیس ابلیس ہمارے لیےبہت خطرناک بن جاتی ہے۔
تعجب تو اس بات پر ہے کہ یہ روشن خیال حضرات جو حسبُنا کتاب اللّٰه کا دعویٰ رکھتے ہیں ، خود اللہ تعالیٰ اور اس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی قرآن پاک کی تشریح و تفسیر کا حق دینے کو تیارنہیں ۔ اُن کو اپنی عربی دانی پر اتنا بھروسہ ہے کہ اسی کی بنیاد پر فرنگیت کو اسلام میں داخل کرتے نظر آتے ہیں ۔ وہ مغربی فکر کو زبردست لفاظی کے ذریعے قرآن و حدیث میں سے کشید کرنے لگ جاتے ہیں ۔ وہ تاویل اور اجتہاد کاکلہاڑا ہاتھ میں لے کر عربی گرامر، لغت اور عربی شاعری کی مدد سے عورت کادائرہ کار وہی متعین کرتےنظر آتے ہیں جو یو این او کے ایجنڈے’سیڈا‘ (Cedaw) کو مطلوب ہے۔
غرض مصنّف نے پرویزی فکر کو آگے بڑھایا اور غامدی فکر کوخوب پروان چڑھایا ہے۔ لغاتِ قرآن کے پردے میں شیطان کو کمک بہم پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ یہ ایسے مارِآستین ہیں جو اپنے فسادِ فکر و نظر سے اُمّتِ مسلمہ کو نقصان پہنچانے کےلیےپوری طرح کوشاں ہیں ۔اس تمام خلط مبحث کا علمی تفصیلی جواب دیا جاسکتا ہے لیکن فی الوقت اہل نظر قارئین کے سپرد کرتے ہیں اور خود یہ ذمہ داری کسی اور موقع پہ اُٹھا رکھتے ہیں ۔ فَاعتبروا یا أولي الأبصار
[1] صفحہ 131