کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 111
اُس دور میں اس بات کا نام ونشان تک نہ تھا، وہ اپنے وضع کردہ تصور کو اسلام کے نام پیش کررہے ہیں ۔‘‘[1]
بحث کا نتیجہ
کتاب کےایک ایک صفحے پر وہ یہ واضح کرتے نظر آتے ہیں کہ مرد و عورت میں کامل مساوات ہے۔ عورت بھی وہ ساری صلاحیتیں رکھتی ہے جو مردوں میں موجود ہیں :
’’خاتون کو قدرو منزلت ، جوقرآن نےعطا کی تھی وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی، او ریہ تصور لوگوں کے رگ و پے میں سرایت کرگیاکہ خاتون مرد سے گھٹیا ہوتی ہے۔ قرآنی آیات کی غلط تاویل کی گئی۔ جن آیات میں قرآن نے وہ حقوق عطا کئے تھے، جو آج تک اُن کو حاصل نہ تھے۔ انہی آیات کو اس کی تنقیص کے لیے پیش کیا گیا، احادیث وضع کی گئیں محض یہ ثابت کرنے کے لیے کہ مرد افضل ہے اور خاتون فروتر۔‘‘[2]
’’خواتین ان فنون میں بازی لے گئیں جو مردوں کےساتھ مخصوص سمجھے جاتے ہیں ۔مثلاً حکمرانی، عسکری قیادت، تحریر و تقریر اور زہد و تقویٰ۔‘‘[3]
’’مردوزن میں جو حیاتیاتی امتیاز پایا جاتا ہے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایک دوسرے کے کام کی صلاحیت نہیں رکھتا او راُس کا دائرہ کار الگ ہے۔‘‘[4]
’’حیاتیاتی اختلاف فرد کے رویوں کو متعین نہیں کرتا۔ جب کسی معاشرے میں حالات بدلتے ہیں تو رویے بھی بدل جاتے ہیں ۔ہر صنف کےوجود میں مردانہ اور زنامہ دونوں خصوصیتیں پائی جاتی ہیں ۔ سرجری کےذریعے مرد خاتون بن جاتا اور خاتون مرد۔‘‘[5]
’’ماضی میں خاتون کی صرف ایک حیثیت تھی۔گھریلو ذمہ داری، اب ایک دوسری حیثیت یعنی کارکن کی بھی پیدا ہوگئی ہے۔ اگر شوہر عورتوں کو ملازمت کی اجازت
[1] صفحہ 408
[2] صفحہ 112
[3] صفحہ 127: قاضی ابن العربی کے’احکام القرآن‘ کے حوالہ سے
[4] صفحہ 130
[5] ایضاً