کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 110
’’وہ(جنّت میں )بہن بھائی بن کر آمنے سامنے مسندنشین ہوں گے۔ وہ دونوں ہم مشرب ہوں گے، محبت اور خلوص میں ایک دوسرے کے شریک ہوں گے۔ ان کےدل سے ہر طرح کےبغض و عناد کو نکال باہرکیا جائے گا۔‘‘[1] اسی طرح وَلهم أزواج مطهّرة کا ترجمہ بھی عجیب اَنداز میں کیاگیا ہے۔ یاد رہے کہ قرآنِ مجید میں یہ لفظ چھ مقامات پر آیا ہے۔ لکھتے ہیں : ’’جنت کا تصور چونکہ مادی نہیں ، اس لئے یہ کہنا مشکل ہےکہ وہاں حیاتیاتی یا جنسی تمیز اسی طرح رہے گی۔لہٰذا لفظ اَزواج سے ذہن کو جنسی تعلقات کی طرف منتقل نہیں ہونا چاہیے۔اس لئے یہاں اَزواج سے مراد ہم خیال اور ہم مشرب ساتھی ہوں گے جن میں مرد اور عورتیں سب شامل ہیں۔غرض مراد صاف ستھرے ساتھی ہے نہ کہ بیویاں ۔‘‘[2] ’’جنت کاتصور مادی تصور نہیں ۔‘‘[3] ’’نہ معروف معنوں میں شادی بیاہ ہوگا۔اُنہیں بقائے نوع کا مسئلہ بھی درپیش نہ ہوگا۔اسلئے زوج کے فعل سے ذہن کو جنسی تعلقات کی طرف مائل نہ ہونا چاہیے۔‘‘[4] خواتین کی تعلیم بارے بھی ان کا نقطہ نظر منفرد ہے کہ ’’خواتین بھی تعلیم کے حصول کے سلسلہ میں دور دراز کا سفر کرتی رہی ہیں ۔ اُنہوں نے نو خواتین کے نام بھی گنوائے ہیں جو حصولِ تعلیم کے لیے سفر کرتی رہی ہیں ۔ وہ مردوں کے حلقہ ہائے درس میں شامل ہوتی تھیں اور عورتوں کے حلقہ ہائے درس میں مرد بھی شامل ہوتے تھے۔ آج کل ہمارے ہاں علما نے مردوں اور عورتوں میں علمی تمیز کا نعرہ بلند کیا ہے اور اُس کے فرائض کو گھر کی چار دیواری تک محدود کررہے ہیں ۔
[1] صفحہ 34 [2] صفحہ 325، 328 [3] صفحہ 325 [4] صفحہ 341،342 کا خلاصہ