کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 11
آپ کے پاس حاضر ہوتا اور میں اپنے گھریلو کام کاج کرتا رہتا۔ اور ہم میں ہر ایک، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وحی نازل ہوتی یا کوئی دیگر مسئلہ ہوتا تو ،اپنے ساتھی کو آکربتا دیتے تھے۔ ‘‘ اس طرح گویا دونوں علم نبوت حاصل کیا کرتے تھے۔ ‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ہاں ایک آدمی کی خبر قبول کرنے کے لیے کوئی شرطیں مقر رنہیں تھیں بس یہی کافی سمجھا جاتا تھا کہ خبر دینے والا ثقہ اور معتبر مسلمان ہو۔ اگرکبھی انہوں نے حدیث پر گواہ کا مطالبہ کیا ہے تو وہ اس لیے نہیں کہ وہ خبر واحد کو حجّت نہیں سمجھتے تھے او رنہ ہی ثقہ راوی پر کوئی الزام لگاتے تھے بلکہ وہ تو صرف خبر واحد کے ثابت ہونےکے لیے تحقیق کی ایک صورت تھی جیسا کہ حدیثِ استیذان ہے اورخبر واحد کی تحقیق کے تو سب قائل ہیں۔حدیثِ استیذان جس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے گواہ کا مطالبہ کیا تھا، وہ ان الفاظ کے ساتھ منقول ہے، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : كنت في مجلس من مجالس الأنصار إذ جاء أبو موسٰى كأنه مذعور فقال: استأذنت علىٰ عمر ثلاثًا فلم يؤذن لي فرجعت فقال ما منعك؟ قلت استأذنت ثلاثًا فلم يؤذن لي فرجعتُ وقال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : «إذا استأذن أحدكم ثلاثًا فلم يؤذن له فليرجع». فقال واللّٰه لتقيمن عليه بينة، أ منكم أحد سمعه من النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم ؟ فقال أبي بن كعب واللّٰه لا يقوم معك إلا أصغر القوم، فكنتُ أصغر القوم فقمتُ معه فأخبرت عمر أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم قال ذلك[1] ’’میں انصار کی ایک مجلس میں حاضر تھا، اس وقت حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ گھبرائے ہوئے آئے اور کہا کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جانےکے لیے دروازے پرکھڑے ہوکر تین دفعہ اندر جانے کی اجازت طلب کی،لیکن اجازت نہ ملنے پر میں واپس آگیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلا کر وجہ پوچھی تو میں نے کہا: میں نے تین دفعہ اجازت طلب کی تھی لیکن جواب نہ آنے پر میں واپس ہوگیا، کیونکہ
[1] صحیح بخاری مع الفتح:11/27، رقم 6245