کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 109
تعداد کچھ بھی ہو۔
مسئلہ شہادت پر لمبی چوڑی بحث کرنے کے بعد صفحہ 99 پر نتیجہ یہ نکالتے ہیں کہ قرآن کی کسی آیت، کسی مرفوع حدیث اور اِجماع سے حدود میں خواتین کی شہادت کی عدمِ قبولیت ثابت نہیں ہوتی تو پھر خواتین کو حدود میں شہادت سے محروم رکھنا قرین انصاف نہیں ۔
اسی طرح وہ عورت کی حکمرانی کوقرآن کےذریعے جائز ثابت کرتے ہیں اور ملکہ سبا بلقیس کو ایک مثالی خاتون حکمران قرار دیتے ہیں ۔مزید لکھتے ہیں کہ یہ مسئلہ چھٹی صدی ہجری میں بھی متنازعہ تھا۔
مصنّف عورت کی نبوت کو بھی قرآن سے ثابت کرتے ہیں ۔اس سلسلے میں حضرت سارہ زوجہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ، اُمّ موسیٰ ، حضرت مریم بنت عمران علیہا السلام اور حضرت آسیہ زوجہ فرعون کی نبوت ثابت کرتےنظر آتے ہیں ۔ اُن میں سے دو خواتین خصوصاً حضرت مریم بنتِ عمران والدہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت آسیہ زوجہ فرعون کو کامل خواتین قرار دیتے ہیں ۔
پھر صفحہ 233 پرلکھتے ہیں کہ حضرت مریم علیہا السلام کی نبوّت پر تو سب علما متفق ہیں ۔
مصنّف’صالحات‘(سورۃ النساء:34) کا ترجمہ ’’نیکو کارباصلاحیت عورتیں ‘‘ کرتے ہیں ۔ وہ ’قانتات‘ کامعروف ترجمہ (شوہروں کی فرمانبردار) کو غلط قرار دیتے ہوئے اِصرارکرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ اللہ کی اِطاعت و فرمانبرداری میں رہنے والیاں ہیں ۔ یہی قانتات کا صحیح ترجمہ ہے۔ وہ واضح کرتے ہیں کہ ’’اس سے مراد شوہر کی فرمانبردار نہیں ہے۔‘‘
لفظ ’حورٌ عین‘کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’ حور بہشت کی ایک نعمت ہے او ریہ مرد و عورت دونوں کے لیے ہے۔ یہ ساتھی اور ہم نشین کےمعنوں میں ہے۔ یہ تزویج نکاح کے رنگ میں نہیں ہے۔‘‘[1]
وہ ﴿ اِخْوَانًا عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِيْنَ ﴾ [2]کاترجمہ یوں کرتے ہیں :
[1] صفحہ 275
[2] سورۃ الحجر:47