کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 108
فعل پر چار گواہ گواہی دےچکے ہوتے ہیں ۔‘‘[1]
ملاحظہ کریں مصنف نےکس چرب زبانی سےنسوانی پردہ اور شرم و حیا کو ایک طرف زندہ درگور کرنا ، دوسری طرف اس کو بدکاری کرنے والی خواتین کی سزا قرا ر دے دیا۔
مسئلۂ شہادت
لکھتے ہیں کہ
’’جاہلی معاشرے میں مرد کےمقابلے میں عورت کی کوئی قدر و منزلت نہ تھی، شہادت دینا تو دور کی بات، اسے بحیثیتِ انسان بنیادی حقوق بھی حاصل نہ تھے۔ قرآن نے اسے یہ اعزاز بخشا کہ گواہی جیسے اہم فریضہ کی اَدائیگی کے لئے مرد کے شانہ بشانہ لاکھڑا کیا او ریہ اِعزاز بھی اس معاملہ میں ، جس میں عام طور پر مردوں کی اِجارہ داری ہوتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنے بڑے اعزاز سے آنکھیں موند کر اسی آیت کو بنیاد بنا کر ثابت کیا جاتا ہے کہ عورت مرد سے آدھی ہے۔‘‘[2]
پھر آگے چل کر مسئلۂ شہادت پربحث کرتے ہوئے جناب مصنف سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر288 کی روشنی میں یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اس آیت کا تعلق گواہی کی اس بھاری ذمہ داری سے ہے جس کے ذریعے ایک مالدار آدمی اپنے حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔ عدالت کے فیصلے سے اس (آیت کا) کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ۔وہ مزید لکھتے ہیں :
1. آیت میں مسلمانوں کو اِنفرادی طور پر مخاطب کیا گیا ہے، اس میں قانونی اِداروں سے خطاب نہیں ۔
2. اس آیت کاتعلق دستاویزی شہادت سے ہے، واقعاتی شہادت کو اس پر قیاس کرنا درست معلوم نہیں ہوتا۔ دستاویز لکھتے وقت گواہ بنانا ہمارے اختیار میں ہوتا ہے۔ وہی لوگ گواہ کی حیثیت سے پیش ہوتے ہیں جو وہاں موجود ہوں ۔ خواہ مرد ہوں یا خواتین اور خواہ ان کی
[1] سورة النساء: 15... صفحہ 183
[2] زير نظر كتاب :صفحہ 88