کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 107
نہ کرتا۔‘‘[1]
پھر وہ اسی موضوع میں آگے چل کر لکھتے ہیں :
’’کھیت میں مرد کے شانہ بشانہ کام کرنے والی ، میلوں چل کر سر پر توازن کے ساتھ تین تین گھڑے اُٹھانے والی، سر پر چارے اور گھاس کی گٹھ اُٹھانے والی، سڑکوں پر روڑی کوٹنےوالی ، سر پر نو، نو دس، دس اینٹیں اُٹھا کر دوسری تیسری منزل پرچڑھنے والی عورت کو کون کمزور کہہ سکتا ہے۔ ہمارےمفسرین جب بھی مرد کی فضیلت کے گن گاتے ہیں تو جسمانی طاقت کاتذکرہ سرفہرست ہوتا ہے اور جو بات عورت کی صحت کی علامت ہے اور اَفزائش نسل کےلئے اَز بس ضروری ہے، اسےعورت کی کمزوری اور خامی تصور کیا جاتا ہے۔میری مراد ماہواری اور حیض سے ہے۔‘‘
مصنف زندہ درگور کرنے کی بحث کےدوران صفحہ 182 پرلکھ رہے ہیں :
’’ایک سعودی باپ اپنی بیٹی کے بارے میں پریشان تھا وہ اپنے اِدارے کےسعودی ملازم سےکہنے لگا:’’میری ایک جوان بیٹی ہے۔نو دس برس کے بعد میں نے اُسےگھر سے نکلنے نہیں دیا، اس پر سورج کی نظر بھی نہیں پڑی۔میں اس کی شادی کرناچاہتا ہوں ، کوئی رشتہ نہیں مل رہا۔‘‘
اس پر مصنّف تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’گھر کی چار دیواری میں محبوس ایک اُجڈ اور اَن پڑھ انسانی رویوں سے ناآشنا سے کون شادی کرتا۔باپ نے تو اسے زندہ درگور کردیا تھا اور سمجھ رہا تھا کہ یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ بیٹی کو گھر سے باہر نہ نکلنے دیا جائے۔اسے اپنے عزیز و اَقارب سے بھی نہ ملنے دیا جائے اور اسے تعلیم سے محروم رکھا جائے۔ حالانکہ گھر میں مقید رکھنا ایک سزا ہے جو ایسی عورتوں کےلیے تجویز کی گئی ہے جوبدکاری کی مرتکب ہوتی ہیں اور اُن کے اس
[1] صفحہ 135: لفظ الإنس پر بحث