کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 106
طرح مخاطب ہیں مثلاً الأنس، البشر، عبد، طائفة، الناس، النفس اور الیتیم وغیرہ ہر باب میں متعلقہ لفظ کے معانی و مطالب کتبِ تفاسیر، حدیث، عربی لغت، گرامر اور عربی شاعری کی رو سےمتعین کئے گئے ہیں ۔بعد اَزاں وہ ان سے اَخذ ہونیوالے مسائل و نتائج پر روشنی ڈالتے چلے جاتے ہیں ۔اَندازِ بیان بظاہر علمی اور سائنٹفک ہے۔مقدمے میں خود ان کابیان ہے کہ ’’ قرآن پاک پڑھنے اور سمجھنے کے لئے علم معانی و بیان کا’اسلوبِ تغلیب‘پیش نظر رکھنا چاہیے،وگرنہ ٹھوکر لگے گی۔‘‘ قرآن پاک کے اکثر اَوامر اور نواہی مذکر کے صیغے میں بیان کئے گئے ہیں اور سب علما کا اتفاق ہے کہ اس میں عورتیں بھی شامل ہیں ۔مثلاً باب الإنس انسان کے تحت قرآنی آیت ﴿خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا ﴾[1]پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’آیت زیر بحث میں ضُعف سے مراد جسمانی ضُعف نہیں بلکہ اس سے مراد وہ محرکات ہیں جو شہوت اور لذت پرستی پر آمادہ کرتے ہیں ۔کمزور آدمی اگر اللہ کی توفیق سے اس کمزوری پر قابو پالے تو وہ قوی شمار ہوگا۔ اور جسمانی طور پر قوی آدمی پر اگر یہ محرکات سوار ہوجائیں تو وہ کمزور شمار ہوگا،لیکن مفسرین کے ذہن میں چونکہ مرد کی فضیلت صرف مرد ہونے کی وجہ سے بیٹھی ہوئی ہے۔ اس لئے اُنہوں نے اس آیت کا عجب مفہوم بیان کیا ہے۔ ان کی رائے میں یہاں انسان سے مراد’مرد‘ ہیں ۔ اُن کو ضعیف اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ عورتوں سے جماع ترک کرنے سے عاجز ہیں او راس پر بے صبری کا اِظہار کرتے ہیں ۔اس سے یہ نتیجہ اَخذ کیا گیا ہے کہ دنیا میں مرد کے لیے سب سے بڑا فتنہ عورت ہے۔ اُنہوں نے اس بیہودہ قول کو سعید بن مسیّب جیسےجلیل القدر تابعی کی طرف منسوب کیا ہے۔ گویا کہ مرد کی صرف ایک ہی بُرائی ہے اور وہ عورت کی وجہ سے ہے ۔ اگر یہ خامی اس میں نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ شادی بیاہ کے اَحکامات ہی نازل
[1] سورة النساء: 28