کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 104
مغرب زدہ مسلمانوں کا اعتراض
کچھ فریب خوردہ مسلمان جو ’ماڈر ینیٹی‘ اور جدّت کو نعمتِ الٰہی سمجھ کر اپنائے ہوئے ہیں اور مغرب کے دام فریب میں آکر اس کی اندھی تقلید میں شاد کام ہیں ، اپنے احساسِ کمتری (جس کی وجہ سے وہ مغرب کی اندھی تقلید میں ملوث ہیں ) کا جواز پیش کرنےکے لیے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اگر یہ مغربی ریستوران، مغربی طرز کےلباس اور امریکی مصنوعات دیگر ممالک میں فروغ پاجائیں یا مسلمان اُنہیں استعمال کرلیں تو اس میں کیا حرج ہے؟ان اشیا کے عام ہونے سے مسلمانوں کے وجود کو کون سا خطرہ لاحق ہے؟ اور ان کا ثقافتی تشخص آخر کس طرح متاثر ہوتا ہے؟
ایسے مغرب پرستوں کے لیے جواب میں صرف ایک فرانسیسی مثال پیش کردینا کافی ہے کہ ’’آپ مجھے اپنا کھانا بتلا یئے، میں بتلاتا ہوں کہ آپ کون ہیں ؟‘‘ یہ مثال حقیقت کی عکاس ہے ، کیونکہ لباس، ماکولات و مشروبات وغیرہ یہ ایسی چیزیں ہیں جو اپنے ملک کے نظریات وخیالات، عادات و اقدار اور زبان بھی ساتھ لاتی ہیں ۔ [1]
بازاروں میں ایسے امریکی اور یورپی لباس عام ہیں ، جن پر انگلش میں ایسی عبارتیں لکھی ہوئی ہیں جو جنسی خواہشات کے لیے محرک ہوسکتی ہیں نیز ان پر اسلامی مقدسات کے خلاف جملے بھی درج ہوتے ہیں مثلاًKiss me (میرا بوسہ لو) ،Take me (مجھے پکڑو)، I’m Jewish (میں یہودی ہوں )، Prostitute(بازاری عورت)، Adultery (زنا) اور Zion (صہیونی) جیسے غیر مہذب اور مخرب اخلاق الفاظ، ان ملبوسات پر درج رہتے ہیں ، جن کا مقصد اس مغربی تہذیب کو پھیلانا ہے جس کی بنیاد اباحیت اور بے امن آزادی پر ہے۔ [2]
اس لیے یورپی و امریکی مصنوعات کا فروغ اپنی تہذیب و ثقافت کو مٹانے، اپنے ملّی و قومی تشّخص کو دفن کرنے اور غیروں کی تہذیب کو اپنانے کی طرف ایک قدم ہوگا، جو افسوس کہ عالم اسلام اُٹھا چکاہے، لیکن اس سے بڑھ کر باعث افسوس یہ ہےکہ اس راہ کے منفی اثرات و نتائج کا ابھی تک اس کو ادراک نہیں ہوپایا ہے۔
[1] رسالہ المنار الجدید مقالہ: الشباب المسلم والعولمـة، از کامل الشریف
[2] الإسلام والعولمة، ص136