کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 100
مشین میں ڈال کر دوکاندار مطلوبہ رقم اپنے ’بنک اکاؤنٹ‘ میں منتقل کردے، عالمگیریت کے ٹھیکے داروں کی اس خواہش کے مطابق آج پوری دنیا میں اس طریقۂ تجارت کا رواج بڑھتا جارہا ہے،لوگ کرنسی کے بجائے کارڈز کے ذریعے لین دین کرنے کو فوقیت دینے لگے ہیں ۔
اور مغربی تقلید میں اپنی بصیرت کھو بیٹھے ہیں مشرقی ممالک میں تو اس طریقے کو ترقی کی علامت اور اعلیٰ طبقے کا شعار سمجھا جارہا ہے، مغربی طوق گلے میں ڈال کر، پھولے نہ سمانے والے اورکاغذ کے چند نوٹوں کے بوجھ سے دبےجارہے ہیں ان لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ اپنے مطلوبہ سامان کی قیمت ادا کرنے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کی دولت پر قابض دو بڑی کریڈٹ کارڈ کمپنیوں (VISA)’ویزا‘ اور’ماسٹر کارڈ‘(Master Card) کی، ان کے جاری کردہ کارڈز استعمال کرنے کی بنا پر منہ بھرائی کررہے ہیں ، ان ’کریڈٹ کارڈز‘ کے ذریعے پوری دنیا میں جہاں بھی کسی قسم کا لین دین ہوگا، اس کا نفع ان دو بڑی کمپنیوں کو ضرور پہنچے گا۔ چنانچہ گلوبلائزیشن نے اس طریقہ تجارت کو قابل تقلید قرار دے کر ان کمپنیوں کا راستہ آسان کردیا ہے اور فطری و طبعی طریقۂ تجارت کو فرسودہ قرا ردے کر ساری دنیا کو اس جدید طریقے کے سحر میں جکڑ دیا ہے۔
نام نہاد جنسی ادب اور تشدد کی ثقافت کو فروغ
ثقافتی گلوبلائزیشن کا ایک خطرناک اثر نئی نسلوں میں جنس پرستی اور تشدد کا فروغ ہے۔ اس عالمی فتنے کے تحت پروان چڑھنے والی نئی نسلیں ، تشدد کو زندگی کے ایک طرز او ر ایک فطری اُسلوب کے طور پر اپنا رہی ہیں ۔ مار دھاڑ اور لڑائی کرنا نوجوانوں کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے۔فلموں میں فن کاروں کی طرح کودنا، چھلانگ لگانا اور ہاتھ پیر مارنا ہی ان کا مطمع نظر ہوگیا ہے۔[1]
نوجوانوں میں اسی قسم کے بڑھتے ہوئے رجحانات کے نتیجے میں معاشرے کو مختلف سنگین جرائم کا سامنا ہے، ہر ملک میں قتل و غارت گری ایک عام سی بات ہوگئی ہے، جرائم پیشہ عناصر ’ہالی وڈ‘اور’بالی وڈ‘ میں بننے والی فلموں کے ذریعے جرائم کے نئے نئے طریقے سیکھ رہے ہیں اور حقیقی زندگی میں ان کا تجربہ کررہے ہیں ۔ نوجوان طبقہ اپنے قیمتی اوقات گھٹیا کاموں میں ضا ئع
[1] الثقافة العربية في مواجهة المتغیرات الدولية الراهنة، از مسعود ظاہر، رسالہ الفکر العربي المعاصر: بیروت عدد 101، 1993ء