کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 10
تخرجوا فرارًا منه)) [1] ’’ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ملکِ شام جانے کے لیے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے، جب وہ ’سرغ‘ مقام تک پہنچے تو اُنہیں وہاں بتایا گیا کہ شام کے علاقے میں تو وبا پھیلی ہوئی ہے۔اس پرسیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب تم سنو کہ کسی علاقے میں وبا پھیلی ہوئی ہے تو وہاں آؤ نہیں ، اور اگر تمہارے علاقے میں وبا پھیل جائے، جہاں تم مقیم ہو تو وہاں سے وبا (طاعون وغیرہ) سے بچنے کےلیے نکلو نہیں ۔ یہ حدیث سن کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا او روہاں سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ واپس مدینہ آگئے ۔‘‘[2] مسلمانوں کے خلیفہ سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک آدمی سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی حدیث (خبر واحد) پر یقین کرتے ہوئے بجائے شام جانےکے، راستے سے ہی واپس آجاتے ہیں ۔ اس پر اُنہوں نے کوئی گواہ طلب نہیں کیا اور نہ ہی اسے ظنّی کہہ کر رد کیا ہے، جیسا کہ یہ منکرین حدیث کا وتیرہ ہے۔ بلکہ سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے طلبِ علم کے لیے ایک انصاری صحابی سے باری مقرر کی ہوئی تھی اوران کی بیان کردہ احادیث کوقبول کیا کرتے تھے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں : قال كنت أنا وجار لي من الأنصار في بني أمية بن زيد وهي من عوالي المدينة وكنا نتناوب النزول علىٰ الرسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فينزل يومًا وأنزِل يومًا فإذا نزلت جئتُه بخير ذلك اليوم من الوحي و غيره وإذا نزل فعل مثل ذلك[3] ’’ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اپنے ایک انصاری پڑوسی سے باری مقرر کررکھی تھی جو مدینہ کے بالائی علاقہ میں بنو اُمیہ میں رہتا تھا، او رہم باری باری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا کرتے تھے۔ ایک دن میں آتا (وہ اپنا کام کاج کرتا) او رایک دن وہ
[1] صحیح بخاری مع الفتح :10/179، رقم5730 [2] صحیح بخاری :10 /179، رقم5729 [3] صحیح بخاری مع الفتح :1 /185، رقم 89