کتاب: محدث شمارہ 357 - صفحہ 8
مسلمانوں کی صورتِ حال تو یہی ہے، مسلم عوام میں اسلامی شعور کی صورتِ حال قدرے بہتر ہے ،لیکن مسلم حکمران تو ملّی جذبہ اور غیرت وحمیت سے بالکل عاری ہیں۔ اس لحاظ سے فی زمانہ اسلام اور شعائرِ اسلام کی توہین دراصل مسلم حکمرانوں کی بے غیرتی اور بے حمیتی کا نوحہ ہے۔ آج بعض معذرت خواہانہ مسلم دانشور یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ ناموسِ رسالت اور توہین اسلام کی یہ مذموم کاروائیاں چند ایک کھلنڈرے اور نادان لوگوں کا فعل ہیں،یہی موقف مغربی حکمرانوں نے بھی اپنا رکھا ہے جبکہ یہ دعویٰ حقائق کے سراسر خلاف ہے۔ 2004ء میں جرمنی اخبارات میں کئی ایک رپورٹیں شائع ہوئیں جس میں بتایا گیا کہ ویٹی کن چرچ دنیا میں اسلام کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے بڑے پیمانے پر رقوم جمع کررہا ہے، اور اس فنڈ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو مسخ کرنے کے لئے استعمال میں لایا جائے گا۔ پھر5 تا 8 مئی 2005ء کو جرمنی میں عیسائی عمائدین کا نمائندہ اجلاس ہوا جس میں امریکی دانشور گریفن ٹارپلے کے مطابق ، ڈنمارک کے اخبار جیلانڈر پوسٹن میں گستاخانہ کارٹون شائع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ خاکے ازاں بعد یورپی ممالک کی نصابی کتب میں بھی شائع کئے گئے۔ اٹلی کے ایک وزیر نے اس موقع پر خاکوں والی شرٹ تقسیم کرنے اور پہننے کا اعلان کیا۔ یورپی پارلیمنٹ نے ڈنمارک کے بائیکاٹ کو پورے یورپ کا بائیکاٹ قرار دیتے ہوئے اس مذموم اقدام کے خلاف یک جہتی اور تائید کی پوری قوت استعمال کی۔اسی پر بس نہیں بلکہ بہت سے اخبارات نے اس کی دیکھا دیکھی ان خاکوں کو بڑے پیمانے پر شائع کیا اور جیلانڈرپوسٹن کو تو باقاعدہ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ باشعور قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ اخبارات کسی قوم کے مجموعی رجحان کا عکاس ہوتے ہیں اور جب تک اس اقدام کے بارے رائے عامہ ہموار نہ پائی جائے اس وقت تک کوئی اخبار ایسا بڑا قدم نہیں اُٹھا سکتا۔ تازہ حالات میں ریاست ہائےمتحدہ امریکہ جہاں تسلسل سے اسلام مخالف اقدامات ہورہے ہیں، اس کا صدربھی لفظی مذمت پر اکتفا کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں قرار دیتا ہے کہ ’’توہین آمیز فلم جیسے اقدامات کو روکنا ممکن نہیں، اس لئے اس فلم کے خلاف پرتشدد مظاہروں کا کوئی جواز نہیں۔ وہ ممالک جن میں مظاہرے ہورہے ہیں ، ان میں سفارتخانوں کے حفاظتی اقدامات بہتر کرنے کی بجائے احتجاج کا سلسلہ ختم کرنا ہوگا۔ کیونکہ آزادئ اظہار کے خلاف احتجاج کا کوئی جواز نہیں بنتا۔‘‘