کتاب: محدث شمارہ 357 - صفحہ 7
اس بدتردور میں نبی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رسالت میں کی جانے والی گستاخیاں، اس تکرار، تسلسل، ڈھٹائی، وسعت اور بڑے پیمانے پر جاری ہیں، جن کا ماضی میں کوئی وجود نہیں ملتا۔ ماضی کا مسلم حکمران دیبل میں کسی ایک مسلم خاتون کی عصمت دری پر تڑپ اُٹھتا اور اس کے نتیجے میں آنے والے لشکرِ اسلام سے آخرکار پورا برصغیر اسلام کے نور سے منور ہوجاتا، کبھی وا معتصماہ کی پکارپر مسلمان خلیفہ بے چین ہواُٹھتا اور روم کے شہروں انقرہ وعموریہ کو زیرنگین لا کر دم لیتا۔ کبھی خلیفہ ہارون الرشید وقت کے امام سے پوچھتا کہ اہانتِ رسول پر میری ذمہ داری کیا ہے، توامام دار الہجرت بے چین ہوکر جواب دیتے کہ ’’اس اُمّت کو دنیا میں جینے کا حق نہیں رہتا جس کے نبی کی توہین کردی جائے۔‘‘ لیکن آج دو ارب تک پہنچنے والے مسلمان، لاکھوں تک پہنچنے والی مسلم افواج، پانچ درجن مسلمان ریاستیں، دنیا کے بہترین اَموال ونعم سے معمور مسلم سرزمینیں، عظیم تجارتی راستوں کی نگہبان مسلم حکومتیں ذلّت ورسوائی کو قبول کئے خوابِِ غفلت میں مدہوش ہیں۔ ان میں ایٹمی قوت پاکستان بھی ہے؛ وہ تیل جس سے دنیا کا پہیہ چلتا ہے، اس کی دولت سے مال مالا عرب ریاستیں بھی ہیں، اورصنعت وٹیکنالوجی کی حامل جنوب ایشیائی مسلم ممالک بھی ہیں۔ ان ممالک پرمسلط حکمرانوں کے محلات اور جاہ وحشم دیکھیں تو ماضی کے بادشاہوں کی شان وشوکت ہیچ نظر آئے ،لیکن ان سب کے ہوتے ہوئے، مسلم اُمّہ پر ذلّت ومسکنت مسلط کر دی گئی ہے۔ جب کسی قوم وملّت کی عظمت کو نشان کو سرنگوں کرنے کی ناروا کوششیں جاری ہوں تو اس قوم کے قائدین کا عزت وسربلندی کی جھوٹی علامتوں اور مصنوعی جاہ وحشم پر مطمئن ہونا جانا شرمناک نہیں تو اور کیا ہے!!
امام مالک کا فرمان بالکل درست ہے کہ دنیا میں ہر مسلمان کی شناخت ذاتِ رسالت مآب سے ہوتی ہے، آخرت میں بھی ان کا تعارف ’محمدی‘ ہوگا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ روزِ محشر پیش ہوکر ،ہماری کثرت پر فخر کریں گے، لیکن جب اپنی شناخت کی حفاظت سے اتنے زیادہ انسان اور اتنی بڑی افواج عاجز آجائیں تو پھر سمجھنا چاہئے کہ کہیں ضرور ایسا بدترین مغالطہ ہے جس میں اس دور کی اُمتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہ گرفتار ہے۔ ظاہر ہے کہ یا تو مذکورہ بالا حقائق درست نہیں یا اسلام کےنام لیواؤں کا اپنے نبی سے محبت کا دعویٰ جھوٹا ہے!!
درحقیقت یہ وہی زمانہ ہے جب اسلام کاصرف نام اور قرآن کے صرف حروف باقی ہیں، اسلام اور قرآن پر عمل کرنے اور اُنہیں جاننے والے خال خال ہی ملتے ہیں۔ اکثر وبیشتر