کتاب: محدث شمارہ 357 - صفحہ 5
مسلم معاشرہ میں گناہ اور بدامنی پھیلانے والوں کو سنگین سزائیں دیں۔محاربین عکل اور عرینہ کی سزائیں ہوں یا رجم وقطع ید کی عقوبات، اسلام کے تقاضے پورے کرنے میں آپ نے کبھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ شمع رسالت کے پروانوں نے منصبِ رسالت میں حرف گیری کرنے والوں کو زندہ رہنے کا حق نہیں دیا۔ ایک نہیں، کئی احادیث سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں غیرمسلم شاتمان کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صلی اللہ علیہ وسلم نے انجام بد سے ہم کنار کرکے چھوڑا، وہ بدبخت عصما بنتِ مروان کی طرح اسلامی ریاست کے شہری ہوں یا جزیرہ عرب وخیبر کے یہودی یا مشرک، چاہے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوکر کفر کی طرف لوٹنے والے عبد اللہ بن سرح ہوں یا عبد اللہ بن خطل... اُن کو قتل کرنے میں بیت اللہ الحرام کی حرمت وتقدس بھی آڑے نہ آئی ۔جب قانون وشرع سے شتم رسالت کے مسلّمہ مجرموں کو سزا دلوانے کی قوی اُمید ہو تو قانون وشریعت سے مدد لینا اسلام کا تقاضا ہے، لیکن اگر قانون عصمت ومنصبِ رسالت کی حفاظت سے قاصر ہو تو مسلمان اس امر کا فیصلہ اپنے ایمان وایقان کے پیمانے سے کرتا ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مسلم خلفا نے رسالت کے تقدس کو اپنا فرضِ اوّلین جانا اور اس کے لئے جہاد کیا۔شانِ رسالت میں دست دراز ی کرنے والے بدترین دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہیں، وہ اربوں مسلمانوں کے دلوں کو ہی چھلنی نہیں کرتے، بلکہ بنی نوع انسانیت کے شرف کو پامال کرتے ہیں۔ وہ اس شخصیت صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت لگا کر گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرتے ہیں جس نے انسانیت کو جینا سکھایا۔ جس نے انسان ہی نہیں، اللہ کی ہر مخلوق کے لئے رحمت پر مبنی احکامات جاری کئے۔کئی صدیاں قبل انسانیت کو قعر مذلت سے نکالا اور رہتی دنیا تک انسانیت کے لئے آپ منارۂ رشد وہدایت ہیں اور آپ نے اپنی اُمّت کی صلاح وفلاح کے لئے اپنی ہر صلاحیت اور فکر کھپا دی۔ جن لوگوں نے ناموس رسالت کے ان حالیہ رکیک حملوں کا جائزہ لیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ کوئی مسلمان یا سلیم القلب شخص ان مکروہ کلمات ومناظر کو چند لمحات کے لئے نہیں دیکھ سکتا۔ اگر مغرب کے دہشت گردی کے خلاف مزعومہ نظریۂ جنگ کو بھی تسلیم کرلیا جائے تو انتہاپسندوں کی یہ جنگ تو چند سو لوگوں کو ہلاک کرنے کا باعث بنی اور اس سے امریکہ کے جڑواں ٹاور تباہی سے دوچار ہوئے اور امریکہ دنیا بھر کو اپنے پیچھے مجتمع کرکے، اپنے مفروضہ