کتاب: محدث شمارہ 357 - صفحہ 4
وبدزبانی کے اوچھے ہتھکنڈوں پر زخمی ہوجایا کرتا اور آپ اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو شانِ رسالت کے تحفظ کے لئے اُبھارا کرتے۔
اہانتِ رسول کے ذریعے تین طرح کے حقوق میں زیادتی کا ارتکاب کیا جاتا ہے، اللہ کے حق میں جس نے آپ کی ذات کو پیغامِ رسالت کا مرکزومحور بنایا۔پھرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا حق اس سے متاثر ہوتا ہے کہ آپ پر سبّ وشتم اور الزام تراشی کرکے ، صریح بہتان کا ارتکاب کیا جاتا ہے؛ یہ آپ کا شخصی حق ہے۔ اور توہین رسالت کے ذریعے شمع رسالت کے پروانوں یعنی محبانِ رسول اور پوری اُمّتِ محمدیہ کا حق مجروح کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان تینوں حقوق کو مجروح کرنے والا بدبخت ترین انسان ہے۔ اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی اُمّت کے لئے شفقت کی گواہی قرآن میں دیتے ہیں ، لیکن وہ خالق رحمت ہستی بھی ایسے شقی القلب بدبختوں کو کیفر کردار تک پہنچائے بغیر نہیں رہ سکتی۔ علامہ ابن قیم جوزیہ اس سنگین جرم کی بابت واضح الفاظ میں قرار دیتے ہیں:
إن كان هٰذا في أول الأمر حيث كان صلی اللہ علیہ وسلم مامورًا بالعفو والصفح وأيضًا فإنه كان يعفو عن حقه لمصلحة التاليف وجمع الكلمة ولئلا ينفِّر الناس عنه ولئلا يتحدثوا أنه يقتل أصحابه وكل هٰذا يختص بحياته صلی اللہ علیہ وسلم [1]
’’اس جیسے واقعات اوّلین دور کے ہیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم معافی اور درگزر کرنے کا حکم دیے گئے تھے۔ اس وقت آپ تالیف ِ قلب، کلمہ اسلام کو مجتمع رکھنے اور لوگوں کے متنفر ہوجانے کے ڈر سے معافی کا راستہ اختیار کیا کرتے اور اس لئے بھی کہ دشمن یہ نہ کہتے پھریں کہ آپ تو اپنے ساتھیوں کو قتل کردیتے ہیں۔ الغرض شتم رسول پر تمام قسم کی معافیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ سے ہی مخصوص ہیں۔‘‘
سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنی حیاتِ مبارکہ میں ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ذاتی حق سے عفو ودرگزر برتا لیکن جب بھی اسلام یا منصبِ رسالت پر حرف آیا،اس کے تحفظ میں آپ کی رحمت وشفقت کبھی آڑے نہ آئی۔ اسی رحمتِ مجسم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے دفاع کے لئے درجنوں جنگیں لڑیں، بدبخت دشمنانِ اسلام کو کیفر کردار تک پہنچایا اور
[1] زاد المعاد از علامہ ابن قیم جوزیہ: 5/59