کتاب: محدث شمارہ 357 - صفحہ 17
احیائے اِسلام کی تحریکوں کو میسر آ چکے ہیں اور اسی طرح مغربی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے بہت سے طالب علم سیکولر معاشروں کی روایات کو اپنانے سے گریز کرتے ہوئے اپنی صلاحتیں اسلام کے لیے وقف کر رہے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں کئی مسلمان تنظیمیں انتہائی سرگرمی کے ساتھ اسلام کا پیغام عام کرنے میں مصروف ہیں۔ مغربی ممالک اِسلام پر دہشت گردی، بنیاد پرستی اور دقیانوسیت کے جو اِلزامات لگاتے رہتے ہیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص ایمانداری کے ساتھ تحقیق کرتا ہے تو وہ اسلام کی سچائی کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک میں بہت سے نامور افراد حلقہ بگوش اسلام ہوئے ہیں۔ اسلام قبول کرنے والوں میں بڑی تعداد خواتین کی ہے جومغربی ممالک کی مادرپدر آزادی اور عورت کو کھلونا سمجھنے کے تصور کی باغی بن کر اسلام کے نظام عفت و عصمت کو اپنانا چاہتی ہیں۔
برطانیہ، امریکہ سمیت کئی یورپی ممالک میں اسلامی طرز حیات کو اپنانے والے افراد کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری جانب دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونےوالی نفرت نے بھی مسلمانوں کو اپنی شناخت کی طرف لوٹنے کا درس دیا ہے۔ گوانتاناموبے، ابو غریب اور دیگر امریکی جیلوں کی انسانیت سوز داستانوں اور قرآن اور پیغمبر اِسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے واقعات نے مسلمانوں کے اندر اپنی دینی روایات سے متعلق تحقیق کرنے، سچ کی تلاش اور دنیا کو حقیقت سے آشکار کرنے کا جذبہ بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
عالم کفر کے گھٹیا پروپیگنڈے کے باوجود اسلام اپنی انسانیت نواز خوبیوں کے باعث روزِ اوّل سے مسلسل پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ آج دنیا بھر میں ایک ارب ستّر کروڑکے لگ بھگ انسان حلقہ بگوشِ اسلام ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکہ اور یورپ میں قبول اسلام کی شرح فزوں تر ہے،بلکہ اسلام یورپی ممالک کا دوسرا سب سے زیادہ وسعت پذیر دین بن چکا ہے ایک تحقیق کے مطابق نصف صدی کے عرصے میں عیسائیت کے 135 /فیصد اِضافہ ہوا جب کہ اہل اِسلام میں اضافہ ناقابل یقین حد تک 240 /فیصد ہوا جس سے یہ بات واضح ہو جاتی کہ امریکہ اور برطانیہ میں اِسلام سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا دین ہے۔