کتاب: محدث شمارہ 357 - صفحہ 16
مسلمانوں کی وحدت کو توڑنے، اُنہیں مایوسی کی دلدل میں دھکیلنے اور احساسِ کمتری میں مبتلا کر دینے کے لیے ہَر دور میں کوششیں ہوتی رہی ہیں تاہم اسلام پسند قوتیں ہر دور میں ان سازشوں کا مقابلہ کرتی رہی ہیں۔ عالمی مفادات کے تحت دنیا کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ تو پہلے سے ہی جاری تھا، لیکن نائن الیون کے واقعے کے بعد شروع کی جانے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ نے اسلام کے خلاف حملوں کو مزید تیز کر دیا ہے۔ صدر بش نے 2001ء میں افغانستان پر حملے کو کروسیڈ یعنی صلیبی جنگ کا نام دیا تھا اور آج یہ بات مزید واضح ہو چکی ہے کہ اس جنگ کا مقصد القاعدہ کو سزا دینے کی بجائے اسلامی نظریات کو مٹانا تھا۔ یہ جنگ اب مکمل طور پر مذہبی بن چکی ہے ، کیونکہ اس کے پیچھے انتہاپسند یہودی اور عیسائی قوتیں سرگرم ہیں۔ مغربی قوتیں نہ صرف اربوں ڈالر کا اسلحہ و بارود استعمال کر کے لاکھوں مسلمانوں کا خون کر چکی ہیں بلکہ مسلمانوں کی ثقافت، دینی روایات، محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن سے تعلق غرض پوری مسلم معاشرت کو ہی تبدیل کر دینا چاہتی ہیں۔ اس مقصد کے لئے تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد اسلام، نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پاک کے خلاف توہین آمیز اقدامات اُٹھائے جاتے ہیں۔ مسلم ممالک کی ثقافت کو تبدیل کرنے کے لئے نام نہاد این جی اوز کو بھاری فنڈز فراہم کئے گئے ہیں جو کہ آزادئ نسواں ، ہم جنس پرستوں کے حقوق، آزادی اظہار رائے اور فن و ثقافت کے نام پر مغربی کلچر کو فروغ دینے میں مصروف ہیں۔ دوسری جانب مغربی ممالک کی پریشانی یہ ہے کہ بھرپور کوشش کے باوجود مسلمانوں کو اُن کے دین سے دور نہیں کیا جا سکا۔ان کے دل سے قرآن کا پیغام اور نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نہیں نکالی جا سکی۔ مغرب کئی سو سال کی حاکمیت کے باجود اسلامی نظریے کو ختم نہیں کر سکا اور یہی وہ بنیادی وجہ کہ جس کے باعث آج مسلمان زیر عتاب ہیں اور نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس اور کتابِ ہدایت کی توہین کر کے مسلمانوں کو اخلاقی پستی کی طرف دھکیلنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ عالم کفر پریشان ہے کہ ان کی بھرپور کوششوں کے باوجود اسلام مغربی ممالک میں تیزی سے پھیل رہا ہے جس کے باعث اعلیٰ تعلیم یافتہ اَفراد