کتاب: محدث شمارہ 357 - صفحہ 10
باریک بینی سے جائزہ لیتے نظر آئے۔ حقوق انسانی کے بلند بانگ نعرے لگانے والی امریکی حکومت کو اپنے ہاں ہونے والی ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے حقوق کی کوئی پامالی اور ابلاغی دہشت گردی تو نظر آئی، اس حوالے سے اپنے کسی فرض کو تو اُس نے نہیں جانا ، لیکن اسے یہ دھمکی دینا ضرور یاد رہی کہ جن لوگوں نے امریکہ کے خلاف جذبات کا اظہار کیا ہے، اُن کا پورا نوٹس لیا جائے گا۔ یہی وہ رویہ ہے جس سے یہ صہیونی دہشت گردی جنم لے رہی ہے۔
اس موقع پر یہ تکلیف دہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ دیگر مسلم ممالک کی طرح پاکستان کے میڈیا پر بھی بے ضمیر اور بے دل لوگوں کا قبضہ ہے۔ یہاں کے میڈیا پر وہ لوگ چھائے ہوئے ہیں جنہیں غیرتِ ایمانی اور حبِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت کم حصہ نصیب ہوا ہے۔ پاکستانی میڈیا کے کارپردازوں کو لاکھوں افراد کی حبِ رسول سے معمور ریلیاں تو نظر نہیں آئیں، نہ ہی ان کو نمایاں کرنے کی اُسے کوئی توفیق ملی۔ اس انتشار پسند اور یہودیت نواز میڈیا کی ساری توجہ اس احتجاج کے مثبت پہلؤوں کو اُجاگر کرنے کی بجائے انتشار وہلاکت کی طرف منعطف رہی، گویا کہ احتجاج کے بارے یہ ایک طے شدہ روش تھی جس کا اظہارکیا گیا۔ یہ میڈیا ہی تھا جس نے پاکستان کے دل لاہور اور دیگر دسیوں پاکستانی شہروں میں ہونے والے منظّم وپرامن احتجاج کو نمایاں کرنے کی بجائے پوری توجہ لاہور کے امریکی قونصل خانے، اور کراچی وپشاور کی چند تخریبی کاروائیوں پر مرکوز رکھی۔ افسوس کہ فلم میں کی جانے والی بدترین دہشت گردی کو، احتجاج کی بے اعتدالیوں کے پردہ میں چھپانے کی کوشش کوئی مسلمان نہیں کرسکتا !!
میڈیا کا یہ تخریب پسند طبقہ اپنی شر پسند مزاج کی بنا پر ہر برائی کو ہی نمایاں کرتا اور ہر خیر کو معمول کا واقعہ سمجھ کر نظر انداز کرتا ہے۔ اسی کو سنسنی خیزی اور ابلاغی تخریب کاری قرار دیا جاتا ہے۔ کیا صرف احتجاج کا یہی بدنماچہرہ ہی کیمرہ فلیش کا مستحق ہے یا لاکھوں مسلمانوں کی پرامن ریلیاں بھی میڈیا کی کسی توجہ کا مستحق ہوسکتی اور کسی خبر کا عنوان بن سکتی تھیں۔ میڈیا کی یہی شرپسندی اور منتخب اخلاقیات ہیں کہ اسلام پسندی کا کوئی عظیم الشان مظہر تو خبر سے محروم رہتا ہے اور اسلام کے خلاف اُٹھنے والی معمولی سی کوتاہی بھی بریکنگ نیوز کے طورپر پھیلا دی جاتی ہے۔ یہ پاکستانی میڈیا ہی ہے جس کو امریکی فلم کی مذمت میں تو کچھ کہنے کی توفیق نہیں ملتی، لیکن اس کے خلاف احتجاج پر نت نئی رہنمائی اور تلقین ضرور نمایاں کردی جاتی ہے۔ اس میڈیا نے آسیہ مسیح، رمشا مسیح اور توہین اسلام کے متعدد واقعات کو پیش کرنے میں وہ دلچسپی نہیں دکھائی