کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 96
جائے۔[1] یہ ہماری حقیر سی کوشش ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے التجا ہے کہ وہ اس عمل کو اپنی ذات کریم کے لیے خالص بنائے اور اس کے ذریعے طالبانِ علم و معرفت کو ہمیشہ نفع پہنچائے۔والحمد لله رب العٰلمین وصلى الله وسلم علىٰ سیدنا ونبینا محمد وعلى آله وصحبه أجمعین .................................. اَب تک جو معروضات کی گئی ہیں، اُن کے مطالعے کے بعد درج ذیل حقائق پر پھر توجہ فرمائیے اور اس پورے معاملے پر حتمی نظر ڈالیے۔ زندگی ربّ ذوالجلال کی بہت بڑی نعمت ہے اور نہایت عظیم الشان مقاصد کے لیے دی گئی ہے۔ جن لوگوں نے اس زندگی کو خودغرضی، ہیرا پھیری، الزام و دشنام، عیش و عشرت اور جسم و جنس کے مطالبوں پر ضائع کیا، وہ تاریخ کے کباڑ خانے میں پھینک دیے گئے۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو زندگی کو اللہ ربّ العزت کی امانت سمجھتے تھے، وہ ہر عیش سے منہ موڑ کر اور ہر صعوبت برداشت کرکے آخر دم تک مقاصدِ حسنہ کے لیے کام کرتے رہے اور تاریخ کے ایوان میں شہیدوں کی طرح سرخرو ہوکر لازوال ہوگئے۔ شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ ایسے ہی منفرد انسانوں میں سے تھے۔وہ احیاے دین ہی کے لیے جیے۔ اِسمی اور رسمی مسلمانوں کو سچا اور کھرا مسلمان بنانے کے لیے دن رات جدوجہد کرتے رہے۔ طرح طرح کی مصیبتیں جھیلتے رہے اور اسی مقدس جدوجہد میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ رحمه الله تعالىٰ رحمة واسعة. شیخ موصوف بارہویں صدی ہجری میں منظر عام پر آئے۔ اس وقت اُمتِ مسلمہ کے فکر وعمل کا کیاحال تھا؟ یہ ایک دل دوز داستان ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت نے رب العزت کی بندگی فراموش کردی تھی۔ عقلوں پر نیند طاری تھی، ظنون و اوہام کی پیروی کی جارہی تھی، ذلّت و مسکنت چھائی ہوئی تھی۔ہندوستان کے بے شمار مسلمانوں کی پیشانیاں قبروں اور آستانوں پر جھکی ہوئی تھیں۔ مصر میں بدوی و رفاعی، عراق میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ المرتضیٰ ، حضرت حسین ،امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ، یمن میں ابن علون، مکہ
[1] دیکھیے المصحف والسیف، ص : 58، 59