کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 85
میں اَصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوں، اُن کی خوبیاں دل میں یاد رکھتا ہوں اور زبان سے چرچا کرتا ہوں، اُنہیں راضی کرتا ہوں اور اُن کے لیے دعاے مغفرت کرتا ہوں، ان کی بُرائی کرنے سے باز رہتا ہوں، ان کے مابین جو نزاع ہوا، اس پر خاموشی اختیار کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ وَ الَّذِيْنَ جَآءُوْا مِنْۢ بَعْدِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۰۰۱۰﴾ [1]
’’اور جو ان کے بعد آئے، وہ دُعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں بخش دے اورہمارے ان بھائیوں کوبھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کےلیے کینہ نہ پیدا ہونے دے، اے ہمارے رب! بے شک تو نہایت شفیق اورمہربان ہے۔‘‘
اس اِرشاد باری پر عمل کرتے ہوئے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت کو مانتا ہوں۔ہر بُرائی سے پاک اُمہات المؤمنین کےحق میں’رضی اللہ عنہن‘ کہتا ہوں، اَولیا کی کرامت و کشف کا معترف ہوں، لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے کسی حق کے وہ مستحق نہیں ہیں۔ جس چیز پر صرف اللہ تعالیٰ قادر ہے، وہ اُن سے نہیں مانگی جائے گی، بجز اس کے جس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گواہی دی ہے۔ میں مسلمانوں میں سے کسی اور کے لیے جنت و جہنم کی گواہی نہیں دیتا لیکن نیکو کار کے لیے رحمت کا اُمیدوار ہوں اورگناہ گار پر عذاب سے خائف ہوں۔ میں مسلمانوں میں سے کسی گناہ کے مرتکب کو کافر نہیں کہتا، نہ اسے دائرۂ اسلام سے خارج مانتاہوں۔ ہر نیک و بد امام کے ساتھ جہاد کو جاری سمجھتا ہوں، ان کے پیچھے نماز باجماعت مباح جانتا ہوں اور جہاد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے لے کر اس اُمت کے آخری فرد کی دجال سے جنگ کرنے تک باقی ہے۔ کسی ظالم کا ظلم اسے منسوخ کرے گا، نہ کسی انصاف پر ست کا انصاف۔
نیک و بد اَئمہ مسلمین کی اِطاعت کو میں واجب سمجھتا ہوں جب تک وہ اللہ کی معصیت کا حکم نہ دیں اور جسے خلیفہ مقرر کردیا گیا اور لوگ اس سے متفق اور راضی ہوگئے یا بزورِ طاقت اُن پر غالب ہوکر خلیفہ بن گیا،اس کی اِطاعت واجب ہے، اس کے خلاف بغاوت کرنا حرام
[1] الحشر:10