کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 84
’’وہ کسی کی بھی سفارش نہیں کریں گے بجز اُن کے جن سے اللہ خوش ہو۔‘‘ اور اِرشاد ہے: ﴿ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖ1ؕ [1] ’’کون ہے جو اس کی اِجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے۔‘‘ نیز اِرشاد فرمایا: ﴿ وَ كَمْ مِّنْ مَّلَكٍ فِي السَّمٰوٰتِ لَا تُغْنِيْ شَفَاعَتُهُمْ شَيْـًٔا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اَنْ يَّاْذَنَ اللّٰهُ لِمَنْ يَّشَآءُ وَ يَرْضٰى ۰۰۲۶﴾ [2] ’’اور کتنےہی فرشتے آسمانوں میں ہیں جن کی سفارش ذرا بھی کام آنے والی نہیں، مگریہ اوربات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی خوشی اور اپنی چاہت سے جس کے لیے چاہے اِجازت عطا کردے۔‘‘ اللہ تعالیٰ توحید ہی سےراضی ہوگا اور اہل توحید ہی کو اہل توحید کی سفارش کرنے کی اِجازت دے گا۔ رہے مشرکین تو شفاعت میں ان کا کوئی حصہ نہیں جیساکہ اِرشاد ربانی ہے: ﴿ فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشّٰفِعِيْنَؕ۰۰۴۸﴾ [3] ’’انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش کوئی نفع نہ دے گی۔‘‘ میرا اس بات پر ایمان ہے کہ جنت اور جہنم مخلوق ہیں۔ دونوں اس وقت موجود ہیں اور دونوں فنا نہیں ہوں گے۔اہل ایمان قیامت کے دن اپنے پروردگار کو اُسی طرح اپنی نگاہوں سے دیکھیں گے جس طرح چودھویں رات کا چاند دیکھتے ہیں ، اس کی دید سے کوئی ضرر نہیں پہنچے گا۔ میں یہ بھی ایمان رکھتاہوں کہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سارے نبیوں اورپیغمبروں پر مہر ہیں۔ کسی بندے کا ایمان، جب تک وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان نہ لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی گواہی نہ دے، صحیح نہ ہوسکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں سب سے اَفضل اَبوبکر صدیق، پھر عمر فاروق، پھر عثمان ذوالنورین، پھر علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہم ، پھر باقی عشرہ مبشرہ، پھر اَہل بدر، پھر درخت والے اَصحابِ بیعتِ رضوان ، پھر باقی صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں۔
[1] البقرۃ: 255 [2] النجم : 26 [3] المدثر: 48