کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 83
درمیان اپنے سفیر، ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اسے نازل فرمایا اور اس بات پر ایمان رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جو چاہے، اسے کر گزرنے والا ہے۔ اس کے چاہے بغیر کوئی چیز نہیں ہوسکتی اورکوئی چیز اس کی مشیت سے خارج نہیں ہوسکتی۔ دنیا میں کوئی چیز اس کی تقدیر سے باہر نہیں ہے، نہ اس کی تدبیر کے بغیر پیدا ہوتی ہے۔ کسی کو متعین تقدیر سے مُفرنہیں۔ لوحِ مکتوب میں جو کچھ لکھا ہے، اس سے آگے کوئی نہیں بڑھ سکتا۔ میں موت کے بعد پیش آنے والی ہر اس چیز پر یقین رکھتا ہوں جس کی خبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ قبر کی آزمائش اور اس کی نعمتوں پر ، اجسام میں رُوحیں لوٹانے پر ایمان رکھتا ہوں اورلوگ ربّ العالمین کے سامنے ننگے پاؤں، ننگے بدن، بغیر ختنہ کھڑے ہوں گے۔ آفتاب اُن سے قریب ہوگا، ترازو قائم کی جائے گی اور اس سے بندوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا جن کے ترازو کا پلڑا بھاری ہوگا، وہ تو نجات پانے والے ہوں گے اور جن کے ترازو کا پلڑا ہلکا ہوگیا، یہی ہیں وہ جنہوں نے اپنا نقصان آپ کرلیا اور ہمیشہ کے لیے واصل جہنم ہوئے۔ دفاتر پھیلا دیے جائیں گے ، کوئی اپنا نامۂ اَعمال اپنے داہنے ہاتھ میں لے گا اورکوئی اپنے بائیں ہاتھ میں لے گا، ان سب باتوں پر میرا ایمان ہے۔ میدانِ حشر میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض پر میرا یقین ہے جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید، شہد سے زیادہ میٹھا ہوگا۔ اس کے ساغر آسمان کے ستاروں کی تعداد میں ہوں گے ، جو اس حوض سے ایک بار پانی پی لے گا اس کے بعد کبھی پیاس نہیں محسوس کرے گا، میرا اس بات پر ایمان ہے کہ پل صراطِ جہنم کے کنارے پر رکھا جاچکا ہے ، لوگ اس سے اپنے اپنے اَعمال کی حیثیت کے مطابق گزریں گے۔ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت پر ایمان رکھتا ہوں اور اس بات پر بھی کہ آپ سب سے پہلے شفاعت کرنے والے ہوں گے اور سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ صرف اہل بدعت اور گمراہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے منکر ہیں لیکن شفاعت اللہ کی اِجازت اور رضا مندی کے بعد ہی ہوگی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَ لَا يَشْفَعُوْنَ1ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى ﴾ [1]
[1] الانبیاء : 28