کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 82
کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوکر اُٹھنے پر اور اچھی یا بُری تقدیر پر ایمان رکھتا ہوں اورایمان باللہ ہی میں سے ان تمام صفات پر بغیر حک و اضافہ، ایمان لانابھی شامل ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو اپنی کتاب میں یا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر متصف کیا ہے۔میرا عقیدہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے مثل کوئی بھی نہیں۔ وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ جن صفات سے اس نے اپنے آپ کو متصف کیا، ان میں سے کسی کا انکار نہیں کرتا، نہ اس کے کلمات کو اُن کی ٹھیک جگہ سے تبدیل کرتا ہوں۔ اس کے ناموں اور آیات میں کج روی نہیں کرتا۔ اس کی کیفیت بیان کرتا ہوں، نہ اس کی صفات کو مخلوق کی صفات جیسی قرار دیتا ہوں کیونکہ وہ بلند و بالا ہے۔ اس کا کوئی ہم نام ہے، نہ کوئی ہم سر ہے اورنہ کوئی اس کا شریک ہے۔ مخلوق پر اسے قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ خود اپنے آپ کو غیر سے زیادہ جانتا ہے۔ اپنی بات میں سب سے زیادہ سچا ہے اور اس کی بات سب سے زیادہ بہتر ہے، اس کی ذاتِ عالی ان تمام صفات سے پاکیزہ ہے جن سے کیفیت بیان کرنے والے اورتشبیہ دینے والے مخالفین اسے متصف کرتے ہیں، اس نے ان صفات سے بھی خود کو منزہ قرار دیاہے جن کا ردّوبدل اور حک و اضافہ کرنے والے منکرین انکار کرتے ہیں، اس کا ارشاد ہے: ﴿ سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُوْنَۚ۰۰۱۸۰ وَ سَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِيْنَۚ۰۰۱۸۱﴾[1] ’’پاک ہے آپ کا ربّ، جو بہت بڑی عزت والا ہے، ہر اس چیز سے (جو مشرک) بیان کرتے ہیں اورپیغمبروں پر سلامتی ہے۔‘‘ اور فرقہ ناجیہ’نجات پانے والا گروہ‘ اللہ تعالیٰ کےاَفعال کے بارے میں قدریہ اور جبریہ کے مابین معتدل ہے اور اللہ کی وعید کے بارے میں وہ لوگ فرقہ مرجئہ و جہمیہ کے مابین معتدل ہیں اور اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں شیعہ اور خوارج کے مابین معتدل ہیں۔ میں اعتقاد رکھتا ہوں کہ قرآن اللہ کا نازل کردہ کلام ہے، مخلوق نہیں ہے۔ اسی سے اس کی اِبتدا ہوئی اور اُسی کی طرف وہ لوٹ جائے گا، اللہ تعالیٰ نے حقیقتاً اس کے ذریعے سے کلام کیا اوراپنے بندے، اپنے رسول، اس کی وحی کے اَمین، اس کے اور اس کے بندوں کے
[1] سورۃ الصّافات:180، 181