کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 81
کے نام ہے۔ ان لوگوں نے شیخ محمد رحمۃ اللہ علیہ سے ان کا عقیدہ دریافت کیا تھا تو اس استفسار کے جواب میں شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ مکتوب ارسال کیا۔ اسے اہل قصیم نے مقامی علماے کرام کی خدمت میں اُن کی رائے جاننے کے لیے پیش کردیا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ مقامی علماے کرام شیخ محمد رحمۃ اللہ علیہ کی دعوت کی تائید کردیں گے تو وہ اسے قبول کرلیں گے، بصورتِ دیگر کنارہ کش رہیں گے۔ چنانچہ علماے کرام نے شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے خط کا بڑی احتیاط اور باریک بینی سے مطالعہ کیا اور شیخ محمد رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت اعلان کردیا کہ وہ راہِ صواب پر ہیں۔ اس جانچ پرکھ اور تحقیق و تفتیش کے بعد اہل قصیم نے شیخ کی دعوت حق قبول کرلی۔ راہِ حق کے مسافروں کا یہی طریقہ ہونا چاہیے۔ یہی شان اور ذمے داری علماے کرام کی بھی ہے کہ وہ معاملے کو علم و بصیرت اور دلیل و برہان کی روشنی میں دیکھیں اورملامت گر کی ملامت سے بے خوف ہوکر سچائی کا اعلان کردیں۔ اَب شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبِ گرامی کا مطالعہ فرمائیے۔ شیخ کے دوسرے خطوط بھی اسی طرح کے ہیں جو اِستفسار کرنے والوں کے جواب میں لکھے گئے۔ جس نے جب کبھی اپنے شک و شبے کا اظہار کیا اور شیخ سے سوال کرکے راہِ حق جاننی چاہی تو شیخ نے فوراً جوابِ باصواب مرحمت فرمایا۔ جس کے نتیجے میں لوگوں پر حقیقتِ حال کھل گئی اور اُنہوں نے شیخ کی دعوت قبول کر لی۔ انہوں نے شیخ کے ہاں کوئی ایسی چیز نہیں پائی جو اللہ کی شریعت کے خلاف ہو یا ان مسلّمہ عقائد کے منافی ہو جن پر اُمتِ اسلامیہ کی بڑی شخصیات اعتقاد رکھتی ہیں۔ شیخ رحمۃ اللہ علیہ کا اہل قصیم کے نام خط [1] 1. جب اہل قصیم نے شیخ سے اُن کے عقیدے کے بارے میں دریافت کیا تو تحریر فرمایا: بسم الله الرحمٰن الرحیم میں اللہ کو، میرے پاس جو فرشتے حاضر ہیں ،اُنہیں اور آپ لوگوں کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں وہی اعتقاد رکھتا ہوں جو فرقہ ناجیہ اہل السنّۃ والجماعۃ عقیدہ رکھتا ہے، یعنی اللہ پر،اس
[1] یہ خط شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ کے شخصی خطوط کی خصوصی قسم میں شائع کیا گیاہے، جو ڈاکٹر محمد بلتاجی، ڈاکٹر سید حجاب اورشیخ عبدالعزیز رومی کی تالیف ہے اوریہ پہلا خط ہے جو الدرر السنیۃ :1/28تا31 سے منقول ہے۔