کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 80
اسلام ایک بے جان ڈھانچہ ہوگیا ہے، یقیناً سامراجی طاقتیں اس کی سرزمین ، خزانوں، کانوں اور دیگر قدرتی وسائل پر قابض ہوجائیں گی، پس اس نئی دعوت کو جس کی گونج وسط جزیرہ نما عرب سے مسلمانوں کی شیرازہ بندی اور اُنہیں ہلاکتوں سے بچانے کے لیے اُٹھی تھی، ایک فرقے کی شکل میں پیش کیا گیا تاکہ فرقوں کی تعداد میں ایک اور اضافہ ہوجائے۔ اسی لیے اسے’وہابیت‘ کا لقب دیا گیا اورشہرت یافتہ ذرائع ابلاغ نے اس لقب کی اشاعت کی جس سے یہ لقب لوگوں میں زبان زدِ عام ہوگیا۔ حکومتِ عثمانیہ کو بھی یہ لقب بھلا لگا، چنانچہ اس نے اسے درویشوں اور شاہی خاندان کی درگاہوں اور خانقاہوں کے دستر خوان پر پلنے والوں کی زبان پر چالو کردیا اور اس پر شبہات ڈالنے اور اس کی صورت مسخ کرنے میں بڑھ چڑھ کر کام کیا، بالخصوص اُس وقت جب اس کی اَہمیت بڑھ گئی اور اس کی بنیاد پر جزیرہ نمائے عرب میں مضبوط عربی اسلامی حکومت قائم ہوگئی۔ [1] وہابی تحریک کی نوعیت، دعوت اور اہمیت کو جاننے اور اُس کے خلاف اُٹھائے جانے والے شکوک وشبہات اور الزامات کے ازالے کے لئے شیخ محمد بن عبد الوہاب کے دو خطوط کو یہاں پیش کرنا مناسب ہوگا... : ایک شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ کا اہل قصیم کے نام خط اور دوسرا وہ خط جو شیخ سلیمان بن عبدالوہاب نے علماے مجمعہ میں سے تین کے نام بھیجا تھا، مگر یہاں بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ان دونوں خطوں کی حتمی تاریخ واضح نہیں ہے۔اس خط میں شیخ محمد احمد سلفی رحمۃ اللہ علیہ دعوت کے سلسلے میں اپنا منہج واضح کرتے ہیں: ’’جب میں شعبان 1407ھ میں موریتانیا گیا تو وہاں کے بعض علما نے اِفادہ عام کے لیے ان دونوں خطوں کا اضافہ کرنے کی درخواست کی تاکہ پڑھنے والے خود اپنی بصیرت کی روشنی میں حقیقتِ حال جان لیں اور صحیح نتیجے تک پہنچ سکیں۔‘‘ ضروری وضاحت: شیخ محمد رحمۃ اللہ علیہ کے خطوط کے مطالعے سے پہلے یہاں شیخ کے ایک خط کی وضاحت ضروری ہے تاکہ قارئین کرام پر اصل حقیقت روشن ہوجائے۔ یہ خط اہل قصیم
[1] دیکھیےكتاب : محمد بن عبد الوهاب: داعیة التوحید والتجدید في العصر الحدیث ’عصر حاضر میں توحید و تجدید کے داعی محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ ‘: ص16،17