کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 8
ذلت سمیٹ رہے ہیں۔ ایسے حالات میں جب سرکاری اداروں کو اپنے فرض کی فکر نہیں بلکہ وہ رہے سہے نصابات کو بھی ختم کردینے پر تلے بیٹھے ہیں تو عامۃ المسلمین کا ہی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے دین کی تعلیم وتعلّم کا معیاری انتظام کریں اور اس اہم ضرورت کی تکمیل کے لئے اپنی صلاحیتیں کھپا دیں۔سوانہی حالات میں جامعہ لاہور اسلامیہ میں ایک اعلیٰ معیار کی اسلامی جامعہ قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس میں علوم اسلامیہ کا دنیا میں موجود بہترین معیار پاکستان میں میسر کرنے کا انتظام کیا جارہا ہے تاکہ پاکستان میں جامعہ ازہر اور مدینہ یونیورسٹی کے معیار کی اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کرنا ممکن ہو۔ اس میں علوم اسلامیہ کا اعلیٰ ترین نصابِ تعلیم پڑھایا جائے، اس کا سرکاری سطح پر اعتراف حاصل کیا جائے اور مثالی اساتذہ یہاں تدریس کے فرائض انجام دیں۔ یہاں علوم اسلامیہ کو تقویت دینے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے جمیع علوم کو اسلامی زاویۂ نظرسے پڑھا یا جائے۔ علم کو دین ودنیا کی ثنویت سے نکال کر، قرآن وسنت کی روشنی میں ہر علم کو سیکھا سکھایا جائے۔ خوش کن امر یہ ہے کہ تادم تحریر اس سمت بہت سی منازل طے ہوچکی ہیں۔ برصغیر میں مدارس کی دو صد سالہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہورہا ہے کہ کسی اسلامی مدرسہ کے نظام، روح اور ہدف ومقصد کو جدید یونیورسٹی کے انتظامی ماڈل میں سمودیا جائے۔ عملاً اس کے تفصیلی خدوخال کیا ہیں، اور اس کے نصاب ونظام کی جزئیات کیا تجویز کی گئی ہیں، اس کی تفصیلات ایک مستقل مضمون کی متقاضی ہیں۔ فی الحال یہ اطلاعات کافی ہیں کہ جامعہ ہذا میں دو سال سے نیا نصاب ونظام جاری ہوچکا ہے، پنجاب حکومت سے اس کی منظوری حاصل ہوئے 7 ماہ ہوچکے ہیں اور رمضان المبارک کے اس مبارک مہینے کے کسی لمحے مختلف میدانوں میں کلاسیں شروع کرنے اور اعلیٰ سرکاری اسناد عطا کرنے کی باضابطہ سرکاری اجازت میسر آنے والی ہے۔اگر اللہ کی مدد شامل حال رہی تو عظیم الشان اسلامی جامعہ قائم ہوکر رہے گا اور پاکستان میں علوم اسلامیہ کے رسوخ اور فروغ کا یہ قرض اپنے تئیں ادا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ان شاء اللہ... ظاہر ہے کہ یہ بڑا ہی عظیم الشان کام ہے جو قرض بھی ہے اور فرض بھی اور اس کے لئے ہم پرخلوص دعا کرکے، اس کو کامیاب کرنے کی مساعی میں عملاً شریک ہوسکتے ہیں۔ السعی منا والاتمام من اللہ (ڈاکٹر حافظ حسن مدنی)