کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 79
دعوت وتحریک ڈاکٹر محمد بن سعد الشویعر محمد بن عبد الوہاب اور اُن کی تحریک کے عقائد اُن کے مراسلات وخطابات کے آئینے میں! اصطلاحاً ’وہابی‘ نام رکھنا، نسبت و اعتقاد کے لحاظ سے اسی طرح غلط ہے جس طرح شیخ محمد اور ان کے متبعین کی طرف منسوب نظریات غلط تھے اور اُن لوگوں نے اس سے برات ظاہر کی۔سلفی عقیدے کے متلاشی دین اسلام کے دونوں سرچشموں: کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کا مقصد زیادہ بہتر سمجھتے ہیں، اس لیے یہ لقب ان لوگوں کے لیے ناگوارِ خاطر نہیں ہے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جس لقب سے انہیں ملقب کیا گیاہے، وہ محض ایک بہتان ہے جو بحث و مناظرے میں ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ یہ لوگ اس روشن راہ کے راہی ہیں جس پر سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو چھوڑا جس کی رات بھی دن کی طرح ہے، ہلاک ہونے والا ہی اس راہ سے بہکے گا، یہ راہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر سے صحت وسند پر اطمینان کے بعد اِختیار کی گئی ہے۔ یہ عمران بن رضوان [1] ہیں، جو بیرونِ جزیرہ کے مسلمان اور اپنے شہر’لنجہ‘کے علما میں سے ہیں۔ جب اُنہیں یہ دعوت پہنچی اور اِس کی سچائی پر اُنہیں یقین ہوگیا تو ایک قصیدے میں اس کی مدح سرائی کی جس میں ذیل کا شعر بھی آیا ہے: إن کان تابع أحمد متوهّبا فأنا المـقر بـأنني وهّابي ’’اگر احمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والا وہابی ہے تو مجھے اپنے وہابی ہونے کا اعتراف ہے۔‘‘ اور یہ شعر اُنہوں نے صرف اس لیے کہا ہے کہ’وہابی‘ کا لقب بقول عراقی عالم محمد بہجت اَثری دشمنانِ اسلام کی خواہش پر رکھا گیا ہے۔ اسلام کے دشمنوں کا خیال تھا کہ عالم
[1] موصوف خلیج عربی کے ساحل پر واقع ایرانی شہر’لنجہ‘کے علما و معززین میں سے تھے۔