کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 78
دنیا کی محبت اور آخرت سے غفلت بھی اُمت کا بہت بڑا مسئلہ ہے، لیکن ثوبان رضی اللہ عنہ کی حدیث میں صرف اس کو ہی اُمت کا مسئلہ نہیں بتایا گیا ۔ہاں آج اُمت میں یہ بیماری بھی ہے، لیکن اس کے ساتھ شرکِ اکبر اور شرکِ اصغر کی سنگین بیماری بھی ہے۔ لہٰذا اُمت کے مسائل کا حل یہ ہے کہ ہر اس بیماری سے بچا جائے جو عقیدہ توحیدکی خالص عمارت کو نقصان پہنچا رہی ہے اوردعوتِ توحید پر اثر انداز ہورہی ہے اور اس کے ساتھ آخرت کی فکر بھی ضروری ہے۔ مضمون کے بعض داخلی تضادات آخری گزارش ہے کہ آدمی کو اپنے عقیدہ و عمل میں کتاب و سنت سے تمسک کرنا چاہیے وگرنہ آدمی تضادات کی قلا بازیاں کھاتا ہے جس کے نمونے جلالی صاحب کے ان زیر نظر مضامین میں جابجا ہیں۔ آخر میں مضمون کے ان داخلی تضادات کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔مضمون نگار ایک جگہ لکھتے ہیں: 1. شرک ہمیشہ کے لیے ختم کردیا۔ (قسط نمبر 1 ،کالم نمبر 3) اور دوسری جگہ اس کے برعکس راقم ہیں: ’’اس کا یہ مطلب نہیں کہ شرکِ جلی کا امکان نہیں۔‘‘ (قسط نمبر، کالم نمبر 2) اسی طرح ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’قبائل کے مشرک ہوجانے کا ذکر بعد کا معاملہ ہے۔‘‘ (قسط نمبر 2، کالم نمبر 1) 2. آگے جا کر اس کے برخلاف لکھتے ہیں: 3. اگر بنده الله كے علاوہ کسی اورکو واجب الوجود یا مستحق عبادت مانتا ہے تو وہ مشرک ہے۔ (قسط نمبر 2، کالم نمبر 3) 4. محبوبان الٰہی کو معبود بنا کر قرب ِایزدی کا وسیلہ بنانے والے پر فتویٰ لگے گا۔ ( قسط نمبر 3، کالم نمبر 2) نتیجہ یہ نکلا کہ شرک کے عدم وجود کا دعویٰ انہی کی تحریر سے ردّ ہوتا نظر آتا ہے۔