کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 77
یہ قصہ بھی ضعیف ہے۔ اس کی سند میں اسماعیل بن یعقوب تیمی راوی ہے۔ سیر اعلام النبلا کے مؤلف امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے میزان الاعتدال[1] پر اس راوی کے متعلق لکھا ہے کہ ابوحاتم نے اسے ضعیف قرار دیا ہے اور یہ امام مالک سے ایک منکر حکایت بیان کرتا ہے اور سیر اعلام النبلا کے محقق شعیب ارناؤط نے لکھا ہے کہ اس قصے کی سند ضعیف ہے۔[2] 3. امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ محدثین کی جماعت کے ساتھ علی الرضا کی قبر پر گئے اورتواضع سے کھڑے رہے۔ [3] اس سے تو قبر کی زیارت کا ثبوت ملتا ہے ،اس واقعے میں نہ خاص سفر کا تذکرہ ہے اورنہ کوئی خرافات ...لہٰذا یہ مدعا کے مطابق نہیں۔ 4. چوتھی صدی میں ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے امام علی الرضا کی قبر شریف کی حاضری کو ہر مشکل کا حل قرار دیا ہے۔[4] یہ بہت بڑا دھوکہ ہے اورامام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ پر الزام ہے کہ انہوں نے قبر کی حاضری کو ہر مشکل کا حل قرار دیا۔ بلکہ اُنہوں نے تو یوں فرمایا: دعوت الله عزوجل إزالتها عني إلا استجیب لي وزالت عني تلك الشدّة [5] ’’میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی میری دعا قبول کی گئی اور میری تکلیف دور ہوگئی۔‘‘ اُنہوں نے تو اللہ سے دعاکو مشکلات کے حل کا ذریعہ بنایا ہے۔ 5. ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی وفات پر بعض لوگوں کا تبرک لینے والا عمل[6] کوئی شرعی حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ یہ نہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا عقیدہ تھا، نہ ان کا حکم تھا اور نہ ہی ان کا عمل تھا۔ اگر بعض الناس کے عمل سے کوئی عقیدہ ثابت ہوتا ہے تو جو کچھ جاہل عوام مزارات پر اس دور میں کررہے ہیں کیا اُنہیں بھی آپ کے عقائد میں شمار کرلیا جائے؟
[1] 1/254، 969 [2] سیر اعلام النبلاء، محقق:5/359 [3] تہذیب التہذیب: 4/ 657 بحوالہ مضمون قسط نمبر 4 [4] کتاب الثقات:5/325 [5] الثقات:8/457 طبع فاروق الحدیثہ [6] البدایۃ والنہایۃ: 14/ 552،553، بحوالہ مضمون قسط نمبر 4