کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 76
’’غزوہ خندق کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد فتح میں پیر، منگل اور بدھ کو دعا مانگی ، جوبدھ کے دن دو نمازوں کے درمیان قبول ہوئی اور جب بھی مجھ پر کوئی مشکل مرحلہ آیا، میں نے بدھ کے دن اسی وقت میں دو نمازوں کے درمیان مسجد فتح میں جاکر دُعا کی، ہر بار میری دعا قبول ہوئی اور مجھے پتہ چل گیا۔‘‘[1] اس روایت کی سند میں کثیر بن زید راوی ہے جس کے متعلق امام ابوحاتم نے لکھا ہے: ’’یہ راوی قوی نہیں ۔‘‘ [2] اور مسنداحمد کے محققین کی جماعت نے بھی راوی کثیر بن زید کی وجہ سے اس کو روایت ضعیف قرا ردیا ہے۔[3] جب یہ روایت ہی ضعیف ہے تو مزارات کے لیے رخت ِسفر باندھ کر وہاں سے فیض حاصل کرنے کا عقیدہ بھی بے بنیاد ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر آج تک اس باطل عقیدے کو ثابت کرنے کے لیے جن واقعات کا سہارا لیا گیا یا تو وہ ضعیف قصے ہیں یا اس موضوع سے ان کا کوئی تعلق نہیں بلکہ بے جا تکلّف کرتے ہوئے ان سے مطلب کی باتیں نکالی گئی ہیں۔ اس قسم کے دلائل پر عقیدہ کی پختہ عمارت کبھی قائم نہیں ہو سکتی۔ ان روایات کے بارے میں مزید تفصیل ملاحظہ ہو: 1. بلال بن حارث کے حوالے سے بیان کیاگیا کہ اُنہوں نے دورِ فاروقی میں روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جاکر مدد چاہی۔ [4] اس کی سند میں اعمش راوی مدلّس ہے اورعن سے بیان کررہا ہے۔ اورمولانا احمد رضا خاں بریلوی لکھتے ہیں کہ مدلس کا عنعنہ جمہور محدثین کے مذہبِ مختار و معتمد میں مردود و نامستند ہے۔ [5] 2. محمد بن منکدر تابعی کے متعلق لکھا ہے کہ اُنہوں نے کہا :مجھ پر جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر سے استعانت کرتا ہوں۔ [6]
[1] الادب ا المفرداز امام بخاری :558،مسنداحمد:14617،وفاء الوفا:3/39 [2] الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم:7/204 [3] الموسوعۃ الحدیثیہ مسند احمد بن حنبل :23/425 [4] البدایۃ والنہایۃ:8/98 [5] فتاویٰ رضویہ: 5/245، 266 [6] سیر اعلام النبلاء :6/159