کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 75
کے بزرگوں کی طرف انتساب کی بھی تو کوئی دلیل ہونی چاہی تھی۔ سید علی ہجویری تو اس کی تردید کرتے ہیں کہ ’’خلقت تجھے گنج بخش اور داتا کہتی ہے جبکہ رنج بخش اور گنج بخش ذاتِ حق ہی ہے۔ آگے لکھتے ہیں کہ ’’شرک مت کر جب تک زندگی بسر کرے۔‘‘ وحده لا شریك له ’’یعنی وہ ذاتِ حق ہر طرح یکتا ہے کوئی بھی اس کا شریک نہیں‘‘[1] واضح ہواکہ بزرگانِ دین بھی سمجھتے تھے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کوان اَوصاف کا حامل سمجھنا درست نہیں اور وہ شرک پر جری کرنے کی بجائے اُمت کو شرک سے ڈراتے تھے۔ 7. آثار ِمقدسہ پر حاضری اور تبرک کے لیے سفر:ان مضامین میں یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثارِ مقدسہ پر حاضری برکت کے حصول کے لیے جانا صحابہ کا عقیدہ تھا۔ اسلئے آج بھی آثار مقدسہ کا تبرک کیلئے سفر درست ہے۔ تبصرہ: ان دلائل پر ذرا غور کیا جائے تو وہ ﴿ يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ ﴾ کا مصداق ہیں۔کسی سفر پر جاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار کرنا اورچیز ہے اور بالخصوص اسی مقصد کے لیے سفر کرنا اور دعاؤں کی قبولیت کے لیے وہاں جانا اور بات ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار و تبرکات میں سے جن زیارات کا ثبوت مل جائے، اُن کا انکار نہیں، لیکن ضعیف روایات کے ذریعےاتنے حساس مسائل میں کمزور استدلال کرنا کسی صاحب علم کورَوا نہیں۔ اس حوالے سے پیش کئے گئے دلائل میں نابینا صحابی رضی اللہ عنہ عتبان بن مالک کا واقعہ پیش کیا گیا ہے کہ اُنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر بلا کر نماز کی درخواست کی تاکہ اس جگہ کو جائے نماز بنا لوں تو اس میں کوئی عیب کی بات نہیں۔اور عبداللہ بن عمرؓجن آثارِ نبویہ پر نماز پڑھتے تھے، وہ خاص اس مقصد کے لیے سفر کرکے نہیں جاتے تھے بلکہ عمل حج اورسفر مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کا حق ادا کرتے تھے۔ اورجس دلیل سے دعاؤں کی قبولیت کے لیے بزرگوں اورنیک ہستیوں کے آثار والی جگہ کی طرف سفر کا استدلال کیا گیا ہے وہ روایت ہی ضعیف ہے۔ اس روایت کا خلاصہ یہ ہےکہ جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
[1] کشف الاسرار: صفحہ 9 ...تصوف ایڈیشن