کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 74
بزرگوں کو وسیلہ بناتے تھے توگویا اس طرح ممانعت خود بخود تسلیم کرلی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دلیل منع کی نہیں بلکہ ثبوت کی چاہیے اوراُنہوں نے جو حکم کا دعویٰ کیا کہ ہمیں اولیا و فوت شدگان کو وسیلہ بنانے کے حکم پر کوئی آیت یا حدیث نہیں ملی تویہ دعویٰ بلا دلیل ہے جو کسی صاحبِ علم کو زیب نہیں دیتا۔ 5. بت اور قبر میں فرق کی کوشش: زیرِ نظر مضمون میں بت اور قبر میں فرق کی بات کی گئی لیکن یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اگر قبر پر بھی عبادت والے کام ہوں تو وہ بھی بت بن جاتی ہے اور اس میں اور مورتی میں حکم کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں رہتا جیساکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی تھی: (( اللهم لا تجعل قبري وثنًا یعبد)) [1] ’’اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنانا کہ اس کی عبادت کی جائے ‘‘ اس سے واضح ہوا کہ قبر بھی بت بن جاتی ہے۔ 6. صفات میں مشابہت: تیسری قسط میں یہ کہا گیا کہ تقریباً ساٹھ آیات ایسی ہیں کہ جن میں ایک ہی وصف اللہ کے بارے میں اوراللہ کے بندوں کے بارے میں بھی موجود ہے اور اللہ کے بارے میں اورلحاظ سے اور بندوں کے بارے میں اورلحاظ سے ہے۔ گویا بندوں میں بھی اللہ کے اوصاف پائے جاسکتے ہیں اور اس سے شرک لازم نہیں آتا۔ تبصرہ:لفظی مشابہت سے دونوں میں برابری نہیں ہوتی۔ یہ اپنے اپنے لحاظ سے علیحدہ استعمال ہے۔ اللہ کاسمیع ہونا اور مخلوق کا سمیع ہونا برابر نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ایک وقت میں دنیا جہاں کی سنتا ہے، دور ونزدیک سے سنتا اور سمجھتا ہےاور کوئی مخلوق انسان ، بہ یک وقت دو انسانوں کی گفتگو کو سن کر سمجھنے پر قادر نہیں، کجا یہ کہ وہ تمام مخلوقات کی التجائیں سنے۔ معلوم ہوا کہ خالق ومخلوق کی صفات میں کوئی مشابہت نہیں۔ در اصل قیاسات کرکے اللہ کی قدرت کو انسانوں کی محدود صلاحیتوں پر قیاس کرلیا جاتا ہے جو کسی عالم کو زیب نہیں اور پھر عقیدے کے مسئلے میں قیاسات کرنا بھی اُصولِ دین سے بے خبری ہے۔مزید برآں اس سے زیادہ افسوس ناک صورت حال تو یہ ہے کہ جن خدائی صفات کا مظہر اور حامل آج بزرگانِ دین واولیا کو سمجھا جاتا ہے، ان کی لفظی مشابہت پر بھی کوئی دلیل موجود نہیں مثلاً غوث، دستگیر، لجپال، داتا، گنج بخش، غریب نواز وغیرہ تو ان صفات
[1] مسندحمیدی:1025، مسنداحمد:2/246، عبدالرزاق:8/464، موطا مالک:419