کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 73
تو خود ربّ کی طرف وسیلہ ڈھونڈتے ہیں کہ ان میں کون زیادہ مقرب ہے۔ اس کی رحمت کی اُمید رکھتے ہیں اوراس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ بے شک تمہارے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے۔‘‘ اس آیت سے واضح ہوا کہ مشرکین مقبول بندوں کو پکارتے تھے اور اسی آیت کی تفسیر میں نعیم الدین مراد آبادی صاحب نے وضاحت کردی ہے کہ مقبول بندوں سےان کی مراد ملائکہ، عزیر علیہ السلام ، عیسیٰ علیہ السلام وغیرہ تھے۔لہٰذا مضمون نگار کا بتوں اورمقبولان بارگاہ ایزدی کا فرق کرکے دونوں میں جُدائی کرنا بےمعنیٰ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ بزرگوں کو وسیلہ بنانے اور فوت شدگان کو قربت خداوندی کا ذریعہ سمجھنے کی وجہ سے مشرک تھے تو یہ شرک آج بھی موجود ہے۔اور رہا یہ مسئلہ کہ وہ عبادت کرتے تھے، تو آج بھی نذرو نیاز ہوتی ہے اور دیگر عبادات والے افعال بزرگوں کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ مولانا غلام رسول سعیدی صاحب لکھتے ہیں:’’ اکثر عوام فوت شدہ لوگوں کی نذر مانتے ہیں اور اولیاء اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے اُن کے مزارات پر روپے پیسے،موم بتیاں اور تیل لے جاتے ہیں۔ یہ نذر بالاجماع باطل اور حرام ہے۔‘‘[1] مزید علامہ ابن عابدین شامی حنفی کے حوالے سے نذر کےحرام ہونے پر اُنہوں نے دلائل دیتے ہوئےلکھا ہے: ’’کیونکہ نذر ایک عبادت ہے اورمخلوق کی عبادت جائز نہیں۔‘‘ [2] اور یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ یہ عبادت بھی آج بزرگوں کی ہورہی ہے ، لہٰذا مضمون نگار کے نزدیک ایسے افراد پر فتویٰ صادر ہوگا جب یہ فتویٰ شرک صادر ہوا تو شرک کی نفی چے معنی دارد! 4. وسیلہ کی عدم ممانعت سے دلائل: یہ شبہ بھی بڑا عجیب ہے کہ قرآنِ مجید کی کوئی آیت ایسی نہیں جس میں مقبولانِ بارگاہ ایزدی کو اللہ کے درمیان وسیلہ بنانے سے روکا گیا ہو اور ساتھ یہ دعویٰ بھی کردیا گیا کہ کسی آیت یا حدیث میں کوئی ممانعت نہیں بلکہ وسیلہ بنانے کا حکم اور اجازت ہے۔[3] تبصرہ: جب یہ ثابت ہوگیا کہ قرآن میں مشرکوں کے وسیلے کی مذمت ہے تو جب وہ
[1] شرح صحیح مسلم :4/539 [2] شرح مسلم :4/539 [3] مضمون اُمت ِتوحید اور پندرھویں صدی ، قسط نمبر 3، کالم نمبر 2