کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 72
کہ اللہ نے انہیں اِذن اوراختیارات دے رکھے ہیں۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’مشرکین بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے کہتے تھے: "لبیك لا شریك لك" نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے تمہاری ہلاکت ہو، اسی پر کفایت کرو؛ لیکن وہ کہتے "إلا شریکًا هولك تملکه وما ملك" اے اللہ! تیرا کوئی شریک نہیں مگر ایسا شریک جو تیرے لیے ہے تو اس شریک کا بھی مالک ہے اور اس چیز کا بھی مالک ہے جو اس شریک کے اختیار میں ہے۔‘‘[1] اس سے واضح ہوا کہ جو عقیدہ جلالی صاحب پیش کررہے ہیں کہ اللہ بزرگانِ دین کو مشکل کشائی کا مظہر بنا دیتا ہے، وہی عرب کے مشرکین کا تھا کہ یہ حقیقی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے مجازاً اُن کو اس بات کا مظہر بنا دیا ہے۔ اگر وہ مشرک تھے تو یہ عقیدہ رکھ کر آج کیسی توحید باقی رہے گی؟ 3. بتوں اور بزرگوں میں فرق:ایک شبہ یہ بھی ڈالا گیا ہے کہ ’’قرآن مجید میں بتوں کو وسیلہ بنانے والے بتوں کے پجاریوں کی مذمت کی گئی ہے۔ بت اللہ کے دشمن ہیں اوران کی عبادت کرکے ربّ کے قرب کا ذریعہ سمجھنا شرک ہی شرک ہے جبكہ مقبولانِ بارگاہِ ایزدی یعنی پیر واولیا تو اللہ کے محبوب و مقرب ہیں، یہ اللہ کے دشمن بتوں کی طرح نہیں۔ حالانکہ پہلے واضح ہوچکا ہے کہ مشرکین عرب بتوں کے علاوہ بھی نیک ہستیوں کو پکارتے تھے اور اُن کو وسیلہ بناتے تھے۔ جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے: ﴿ قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ فَلَا يَمْلِكُوْنَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَ لَا تَحْوِيْلًا۰۰۵۶ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ يَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِيْلَةَ اَيُّهُمْ اَقْرَبُ وَ يَرْجُوْنَ رَحْمَتَهٗ وَ يَخَافُوْنَ عَذَابَهُ1 اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُوْرًا۰۰۵۷﴾ [2] ’’آپ فرما دیں! اُنہیں پکارو جن کو اللہ کے سوا گمان کرتے ہو تو وہ تم سے تکالیف دور کرنے اورپھیرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ وہ مقبول بندے جنہیں یہ کافر پوجتے ہیں وہ
[1] صحيح مسلم: 1185 [2] سورۃ الاسراء :56، 57