کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 71
تبصرہ:اگر مذکورہ بات کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر مکے کے مشرک بھی پکے موحد ثابت ہوجائیں گے کیونکہ مشرکین مکہ بھی جن بندوں، فرشتوں یا جنات کو پکارتے تھے، اُن کی نذرونیاز کرتے تھے۔ وہ بھی ان کو اللہ کی طرح غیر محتاج یا اللہ کو ان کی طرح محتاج نہیں مانتے تھے ۔ درج ذیل آیات اس بات کی وضاحت کر تی ہیں۔ فرمانِ خداوندی ہے: ﴿ اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ عِبَادٌ اَمْثَالُكُمْ ﴾ [1] ’’بے شک اللہ کے علاوہ جنہیں تم پکارتے ہو وہ تمہاری مثل بندے ہیں۔‘‘ ﴿ اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ وَ الْعُزّٰىۙ۰۰۱۹ وَ مَنٰوةَ الثَّالِثَةَ الْاُخْرٰى ۰۰۲۰﴾[2] ’’اب تم ذرا بتاؤ تم نے کبھی اس لات، اس عزیٰ اور تیسری ایک دیوی منات کی حقیقت پر کچھ غور کیا۔‘‘ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ’’ لات ایک آدمی تھا جو حاجیوں کو ستو پلاتا تھا۔‘‘[3] یہ حقیقت تھی ان بتوں کی جن پر فتواے شرک لگانے پرتو ڈاکٹر آصف جلالی (مضمون نگار) بھی متفق ہے۔[4] اُن کے پیچھے بھی تصور نیک ہستیوں کا تھا اور بعض مقربین بھی تھے ۔ اگر ان پر فتویٰ شرک لگتا ہے تو اِن پربھی لگے گا لہٰذاموصوف کا اُن کو بت کا نام دے کر اللہ کے دشمن قرار دینا کوئی قرین انصاف نہیں بلکہ قرآن و سنت سے روگردانی ہے۔ 2. حقیقی اور مجازی کی تعریف:یہ شبہ بھی پیش کیا گیاکہ اُلوہیت مجازی نہیں ہوتی کسی کو مجازی طور پر اللہ نہیں کہہ سکتے لیکن مددگار کہہ سکتے ہیں اورمشکل کشائی کا مجازاً بندے کو مظہر بنایا جاسکتا ہے۔ تبصرہ: اگر آج کے جدید مفکر صاحب کی یہ حقیقی اورمجازی کی تقسیم مان لی جائے تب تو ان کے نزدیک عرب کے مشرکوں کوبھی عقیدہ توحید کا سرٹیفکیٹ مل جائے گا۔﴿ سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ﴾ اوپر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ وہ بھی بزرگ ہستیوں کو مافوق الاسباب نہیں پکارتے تھے اوراُن کی عبادت کرتے تھے، ان کی نذر و نیاز کرتے تھے وہ انہیں غیر مستقل اورمجازی سمجھتے تھے جبکہ حقیقی اللہ کو باقیوں کو ماتحت سمجھتے تھے اوریہ عقیدہ رکھتے تھے
[1] الاعراف :194 [2] النجم:19، 20 [3] ابن کثیر:4/267 [4] زیر نظر مضمون: قسط نمبر 3 ،کالم نمبر 2