کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 70
یکے بعد دیگرے آنے والے فرشتوں سے تمہاری مدد کرنے والا ہوں۔‘‘ اور اس سے اگلی آیت میں واضح کردیا کہ مدد صرف اللہ کی طرف سے تھی۔ جب مد د اللہ کی تھی تو فرشتوں کا آنا تحت الاسباب تھا، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ فرشتوں کو مددگار سمجھ کر انہیں پکارنا شروع کردیا جائے۔ ایک لمحے کے لیے اگر جلالی صاحب کی بیان کردہ توحید کی تعریف تسلیم بھی کرلی جائے تو تب بھی آج بہت سے لوگ شرک میں مبتلا ہیں۔ آج مزارات کے متعلق یہ اشعار لکھے جاتے ہیں: ’’ہمیں سجدے روا ہیں خواجہ اجمیر کے‘‘ (دیوانِ محمدی) مزاروں کے طواف ہوتے ہیں، اُنہیں نذر و نیاز کے لائق سمجھا جاتا ہے، حج آستانوں پر ہوتے ہیں، جوافراد ان خرافات میں مبتلا ہیں وہ اولیا و اکابرین کو اُن کا مستحق سمجھ کر یہ کام کررہے ہیں۔ جب مستحق سمجھ لیا تو ان کی تعریف کے مطابق وہ مشرک ہوگئے۔ لہٰذا یہ دعویٰ کہ شرکِ اکبر اس اُمت کا پرابلم نہیں، باطل ہوجاتا ہے۔ حقیقت میں شرک ایک بڑا ہی اہم مسئلہ ہے جس کی فکر ضروری ہے!! دیگر شبہات اوران کا ازالہ پیچھے اُمتِ مسلمہ میں شرک کے وجود پر پیش کردہ دلائل سے یہ حقیقت واضح ہوچکی ہے کہ شرک ایک بڑا خوف ناک مسئلہ ہے اور ہر مسلمان کو اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمارے پیشر نظر مضمون کے قلم کار جناب ڈاکٹر آصف اشرف جلالی صاحب نے پہلے تو اُمت محمدیہ میں شرک کے عدم امکان کے خود ساختہ دلائل پیش کئے، پھر شرک کی تعریف اس طرح پیش کی جس سے اکثر وبیشتر شرک کی صورتیں از خود ہی توحید قرار پانے لگیں۔ اپنے مضامین میں اُنہوں نے پھر شرک کی بعض پائی جانے والی صورتوں کی نت نئی توجیہات پیش کی ہیں تاکہ شرک کی مروّجہ صورتوں کے متعلق حساسیت ختم ہوکررہ جائے اور اُمت اسی گمراہی کا ہی شکار رہے۔ ذیل میں ایسی صورتوں کو ایک ایک کرکے پیش کیا جاتا ہے: 1. برابری سے شرک: ان مضامین میں یہ شبہ بھی پیدا کیا گیا کہ شرک اسی وقت لازم آتا جب اللہ تعالیٰ کے بندوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرح محتاج نہ مانا جائے یا پھر اللہ تعالیٰ کو اللہ کے بندوں کی طرح مشکل کشائی میں کسی کا محتاج مانا جاتا۔ [1]
[1] زیر نظر مضمون: قسط نمبر 2/ کالم نمبر 3