کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 69
’’بیشک عبادت کرنا، حاجات طلب کرنا اور مدد طلب کرنا صرف اللہ کا حق ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ مشکل کشا اورمددگار ہونا معیا رِاُلوہیت ہے۔ لیکن روزنامہ ’پاکستان‘ کے مضمون نگار نے مافوق الاسباب اور تحت الاسباب مددلینے کی مثالیں پیش کرکے مشکل کشائی اور دستگیری کے مسئلے کو الجھانے اور خلط ملط کرنے کی کوشش کی ہے۔حالانکہ تحت الاسباب اور فوق الاسباب مدد لینے کی تقسیم قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ تحت الاسباب کسی سے تعاون لینا تو شریعت میں مطلوب ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے: ﴿ وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى 1﴾[1] ’’اور تم نیکی کرو اور تقویٰ میں ایک دوسرے کا تعاون کرو ۔‘‘ اور مافوق الاسباب تو ربّ کے سوا کسی کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ ارشادِ ربانی ہے: ﴿ اَيُشْرِكُوْنَ مَا لَا يَخْلُقُ شَيْـًٔا وَّ هُمْ يُخْلَقُوْنَٞۖ۰۰۱۹۱ وَ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ۠ لَهُمْ نَصْرًا وَّ لَاۤ اَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُوْنَ۰۰۱۹۲﴾[2] ’’کیا ایسے لوگوں کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں جو اُن کی مددکرسکتے اور نہ اپنے آپ کی مدد پر قادر ہیں۔‘‘ رہا بدر میں فرشتوں کا مدد کے لیے آنا تو وہ بھی اللہ کی مدد تھی اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ ﴾ [3] ’’اور تحقیق اللہ نے بدر میں تمہاری مدد فرمائی۔‘‘ سورۂ انفال میں واضح فرمایا کہ مؤمنوں نے اللہ کے سوا رسولوں یا ولیوں یا فرشتوں سے مدد نہیں مانگی تھی۔ جبکہ آج کل ان ہستیوں سے مدد کے لیے بہ کثرت نعرے بلند کیے جاتے ہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو یہاں تک فرمایا: ﴿ اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ۠ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّيْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ مُرْدِفِيْنَ۰۰۹﴾ [4] ’’جب تم اپنے رب ّسے مدد مانگ رہے تھے اس نے قبول کیا کہ بیشک میں ایک ہزار
[1] سورۃ المائدۃ:2 [2] سورۃ الاعراف: 191، 192 [3] سورۃ آل عمران :123 [4] سورۃ الانفال:9