کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 68
تب ہی ہوگاجب کسی کو واجب الوجود یا مستحق عبادت سمجھا جائے۔ [1] حقیقتِ حال:یہ ہے کہ توحید کی یہ تعریف انتہائی ناقص اورناکافی ہے۔اگر اس تعریف کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر علما اور پیروں کو ربّ بنانے والے بھی موحد ثابت ہوں گے، جبکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتے ہیں: ﴿ اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ﴾ [2] ’’اُنہوں نے اپنے علما اور پیروں کو اللہ کے سوا ربّ بنا لیا ہے۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی کو ربّ بنا لینا شرک ہے اور عیسائی لوگ اپنے علما اور پیروں کو نہ واجب الوجود سمجھتے تھے اور نہ مستحق عبادت بلکہ محض ان کی خلافِ شریعت اطاعت کرتے تھے ،لیکن قرآنِ مجید نے اسے ربّ بنانے سے تعبیرکیا ہے۔اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ اس خود ساختہ تعریف کے مطابق تو غیر اللہ کو ربّ بنانے والے بھی موحد ہی قرار پائے۔ کیا مددگار ہونا معیار اُلوہیت نہیں ؟ اپنے خود ساختہ عقائد و نظریات کو کمزور دلائل کی بیساکھی دیتے ہوئے مضمون نگار نے یہ بھی کہا کہ’’معیارِ اُلوہیت مددگار ہونا نہیں‘‘[3] یعنی توحید کے تقاضوں میں یہ بات شامل نہیں کہ اللہ کو اکیلے اور یکتا مشکل کشا سمجھا جائے۔ تبصرہ: یہ بھی مفہوم قرآن سے عدم دلچسپی یا چشم پوشی کا نتیجہ ہے وگرنہ بیسویں پارے کی ابتدائی آیات میں واضح طورپر خالقیت، مدبر الامور ہونا، لاچاروں کی پکار سن کر مشکل کشائی اور خشکی و پانی کی تاریکیوں میں راہنمائی اور قیامت کے دن دوبارہ جمع کرنے اور آسمان و زمین کے رزاق ہونے کو ہی معیار ِاُلوہیت قرار دیا گیا ہے۔ [4] ایک حنفی عالم طاہر چشتی لکھتے ہیں: إن العبادة وطلب الحوائج والاستعانة حق الله تعالىٰ وحده [5]
[1] زیر نظر مضمون :اُمتِ توحید اور پندرھویں صدی، روزنامہ پاکستان 7/ اپریل 2012، قسط نمبر 2 [2] التوبۃ:31 [3] حوالہ نمبر 1،کالم نمبر 3 [4] النمل:60 تا 64 [5] مجمع بحار الانوار:2/448