کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 67
بعض لوگوں نے آج بھی جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوقِ اطاعت و اتباع اپنے ائمہ کو دے رکھے ہیں، اسی طرح حقوقِ الٰہی کو بھی بعض دوسرے لوگ تقسیم کرکے شرک کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اللہ کا احسان ہے کہ اُمت کا عظیم طبقہ توحیدِ خالص پر کل بھی قائم تھا ، آج بھی قائم ہے اورقائم رہے گا۔ ان شاء اللہ! جس پیغمبر نے شرک کی جڑیں کاٹی تھیں، اس متبع وحی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی پیش گوئی فرمائی تھی۔ (( لترکبن سنن من کان قبلکم)) تم ضرور پہلے لوگوں کے طریقوں پرچلو گے۔[1] اس حدیث کے سیاق میں ذاتِ انواط یعنی درختوں کو متبرک سمجھ کر اسلحہ لٹکانے کا ذکر ہے اور اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے "إله" معبود بنانے سےتعبیر کیا اور وہ معبود بنانا پہلی اُمتوں کا شرک تھا جس کے متعلق واضح کیا کہ تم شرک میں پہلی اُمتوں کی پیروی کرو گے اورآج اس طرح کے معاملات کرنے والےبہت سے لوگ ہیں جن پر فتویٰ شرک صادر ہوتاہے۔ لیکن تعجب ہے ایسے نام نہاد مفکرین پر جو کہتے ہیں کہ پہلی اُمتوں جیسی شرک کی بیماری اس اُمت کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ توحید و شرک کے پیمانوں میں تعریف کے ذریعے تبدیلی شرک کی مذمت سے بچنے اور اصلاحِ احوال کی فکر کرنے کی بجائے پیش نظر مضمون میں توحید وشرک کی تعریف ہی اس انداز سے کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ بے شمار شرکیہ اعمال ، شرک کے دائرے سے خارج ہوجائیں۔ چنانچہ توحید کی حقیقت یہ ہے کہ’’اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات، صفاتِ مخصوصہ اورحقوق و اختیارات میں یکتا و بے مثل مانا جائے۔‘‘ جبکہ مضمون نگار کے بیان کے مطابق ’’توحید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اُلوہیت میں کسی کو شریک نہ مانا جائے۔‘‘ واضح رہے کہ یہ صرف توحید اُلوہیت کی تعریف ہے جبکہ توحیدِ ربوبیت اور توحید اسماء و صفات اس تعریف سے خارج نظر آرہے ہیں، لہٰذا یہ تعریف ناقص ہے۔ پھر اس پر ہی بس نہیں بلکہ معیارِ اُلوہیت بھی یہ مقرر کیا گیا ہے کہ کسی کو واجب الوجود اورمستحق عبادت سمجھا جائے ، اور واجب الوجود وہ ذات ہے جس پر کبھی نہ عدم آیا ہے ، نہ آسکتا ہے۔اور شرک
[1] مسندحمیدی:848، مسند احمد:5/21،سنن ترمذی :2180