کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 66
معاملات میں یہ الفاظ «لاتقوم الساعة» استعمال کیے ہیں لیکن وہ معاملات قربِِ قیامت کےساتھ خاص نہیں، بعد کے معاملے نہیں بلکہ کچھ واقع ہوچکے اور کچھ ہورہے ہیں حتی ٰکہ بعض تو آپ کے بعد قریبی زمانے میں ہی وقوع پذیرہوگئے تھے۔ لہٰذا ان الفاظ کو شرک کے متعلق بھی اسی طرح سمجھا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سچ ہے کہ قیامت سے پہلے ایسا ہوگا، کتنا پہلے ہوگا، اس کی کوئی قید نہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے صحیح بخاری کی ایک روایت پر غور کریں، جس کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہيں: (( لاتقوم الساعة حتى تقتل فئتان عظیمتان تکون بینهما مقتلة دعوتهما واحدة وحتى یبعث دجالون کذابون قریب من ثلثین کلهم یزعم أنه رسول الله وحتى یقبض العلم وتکثر الزلازل)) [1] ’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ دو عظیم جماعتیں لڑائی کریں گی۔ ان کے درمیان بڑی جنگ ہوگی اور اُن کی دعوت ایک ہوگی اور قیامت قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ تیس کے قریب جھوٹے دجّال آئیں گے اور ہر کوئی دعوے دار ہوگا کہ وہ اللہ کا رسول ہے اور قیامت قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ علم قبض کرلیاجائے گا اور زلزلے بکثرت ہوں گے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد، قریبی زمانے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان جنگیں ہوئیں اور اُن دونوں کی دعوت بھی ایک تھی پھر جھوٹے مدعیانِ نبوت بھی اس دور سے ہی جاری ہیں اورآج قحط الرجال کے دور میں اور علما کی وفیات کے ذریعے علم بھی اُٹھ رہا ہے، زلزلوں کا سلسلہ بھی کچھ عرصہ سے مخفی امر نہیں۔ اب اگر «لاتقوم الساعة» سے مراد قرب ِقیامت والی ’صاحب مضمون ‘ كی منطق تسلیم کرلی جائے تو اس صحیح حدیث میں مذکور تمام چیزوں کے اب تک وقوع کی نفی کرنے پڑے گی حالانکہ یہ واقع ہو چکی ہیں اور بعض مزید بھی ہوں گی۔ جبکہ صحیح انداز پراحادیث کو سمجھنے سے کسی حدیث کا انکار لازم نہیں آتا۔ الغرض یہ بات واضح ہے کہ جس طرح اس حدیث میں مذکورہ واقعات بعد کے معاملے نہیں، اسی طرح قبائل کا مشرک ہوجانا یااُمت میں شرک کا وجود بھی بعد کا معاملہ نہیں۔
[1] صحیح بخاری:7131