کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 65
نے اپنے آباو اجداد کو اس کلمے پر پایا، ہم نےبھی یہ کلمہ کہہ دیا اور اُنہیں یہ لا إلٰه إلا الله فائدہ دے گا۔‘‘ [1] تبصرہ : اس روایت کی سند پر تبصرے سے قطع نظر اس کے متن پر غور و فکر کرنے سے ہر ذی شعور یہ فیصلہ کرے گا کہ اس حدیث میں صرف بدعملی کی بات ہوئی ہے اوربدعملی کے دور میں بھی کچھ لوگ کلمے پر قائم ہوں گے اور شرک میں مبتلا نہ ہونے کی وجہ سے کلمہ اُنہیں فائدہ دے گا۔لیکن یہ تو صاحبِ مضمون کی اپنی اختراع ہے کہ اس دور تک کبھی شرکِ جلی نہیں ہوا ہوگا اورکبھی شرک کا دور دورہ نہیں ہوا ہوگا۔ مذکورہ حدیث میں کہیں کوئی ادنیٰ اشارہ بھی اُن کے مدعا کو ثابت نہیں کرتا۔ حقیقت یہ ہے کہ خالص کلمہ توحید جو شرک کی آمیزش سے پاک ہو، وہ ہر دور میں فائدہ دیتا ہے حتیٰ کہ بدعملی کے تاریک دور میں بھی خالص کلمہ توحید فائدہ دے گا اور اس میں کوئی اختلاف کی بات نہیں۔ لیکن اس سے یہ مفہوم کشید کیا جائے کہ اس وقت تک اُمت میں شرک نہیں ہوگا، من چاہا استدلال اور مطلب کی بات ہے! مفہوم حدیث میں تحریف: انتہائی قابل افسوس بات ہے کہ اُمت میں بدعقیدگی پھیلانے کی خاطر نام نہاد مفکر اَحادیث کے مفہوم کو اپنی من چاہی آرا کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔[2] انہی میں سے ایک بات زیرِ نظر مضمون ’پندرھویں صدی اور اُمتِ توحید‘[3]میں ہے کہ ’’ایک حدیث شریف میں جو کچھ قبائل کے مشرک ہوجانے کا ذکر ہے تو وہ بعد کا معاملہ ہے۔‘‘ اس کے لئے بعض احادیث میں «لاتقوم الساعة»کے الفاظ کے ساتھ شرک کے بیان سے من مانا مفہوم نکالا گیا ہے۔ قارئؔین ملاحظہ فرمائیں کہ یہاں کیسے بے جا طورپر مفہوم حدیث میں تحریف کی گئی ہے۔ دراصل «لاتقوم الساعة»کے الفاظ کی بنا پر اس کو قربِِ قیامت سے ہی خاص کرلینا عربی اُسلوب اورمفہوم احادیث سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ مضمون نگار نے «لاتقوم الساعة» کےالفاظ سے یہ باور کرایا کہ شاید یہ بعد کا معاملہ ہے اور قربِِ قیامت ایسا ہوگا۔ جبکہ احادیث میں غوروفکر کرنےسے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے
[1] مستدرک حاکم :5/666، 8508، سنن ابن ماجہ: 4049، النہایۃ فی الفتن لابن کثیر:1/30 [2] جس کی مثالیں مضمون ’’اُمتِ توحید اورپندرہویں صدی‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ [3] قسط نمبر 2، کالم نمبر1: روزنامہ پاکستان: 7/اپریل 2012ء