کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 64
ہے لیکن ا س سے شرکِ اکبر کے وجود کی نفی نہیں ہوتی۔ 5. مضمون نگارنے اُمتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں شرک اکبر کے وجود کی نفی پر اس روایت سے بھی استدلال کیا ہے کہ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ: «إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ أَيِسَ أَنْ يَعْبُدَهُ الْمُصَلُّونَ فِي جَزِيرَةِ الْعَرَبِ» [1] ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان اس بات سے مایوس ہوگیاہے کہ نمازی ، جزیرۂ عرب میں اس کی عبادت کریں گے۔‘‘ اس حدیث سے اُمت میں شرک کی نفی کرتے ہوئے مضمون نگار کہتے ہیں کہ یہ صرف جزیرۃ العرب کے لحاظ سے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لحاظ سے ہے۔ حالانکہ موصوف کو عام اور خاص میں فرق کرنا چاہئے۔ کتنی سادہ بات ہے کہ المصلّون میں نمازی عام تھا اور جزیرۃ العرب کے الفاظ سے تخصیص ہوگئی اور اعتبار تو خاص کا ہوگا، نہ کہ عام کا، لیکن افسوس کہ خود ساختہ نظریات کی خاطر سب کچھ جائزکردیا جاتا ہے۔ یوں بھی اس حدیث مبارکہ میں جزیرہ عرب میں بھی صرف اس کی عبادت کی نفی کی گئی ہے۔ جہاں تک شیطان کی اطاعت کا معاملہ ہے جو عبادت کا مجازی مفہوم ہے، تویہ فتنہ اب بھی جزیرۃ العرب سمیت پوری دنیا میں موجود ہے۔ کتنے لوگ رحمٰن کی بجائے شیطان کی اطاعت کررہے ہیں۔ مزید برآں جزیرۃ العرب میں بھی اجتماعی طورپر شیطان کی عبادت کی نفی کی گئی ہے کہ سب نمازی شیطان کی شرک والی اطاعت و عبادت نہیں کریں گےالبتہ بعض اس بیماری میں مبتلا ہوں گے۔ 6. مذکورہ مضمون میں شرک کی نفی پر یہ دلیل بھی دی گئی ہے کہ جب نماز، روزہ بھی باقی نہیں رہے گا تو یہ کلمہ اُس وقت بھی معتبر ہوگا۔ چنانچہ اس اُمت میں پہلے بدعملی آئے گی اور اب اس وقت یہ اُمت جس مرحلہ سے گذر رہی ہے، یہ مرحلہ شرکِ جلی میں مبتلا ہونے کا نہیں ہے۔اور اس کے لیے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی اسی روایت سے استدلال کیا گیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’اسلام بوسیدہ ہوجائے گا اور بوڑھے مرد اور عورتیں رہ جائیں گے۔ وہ کہیں گے ہم
[1] صحیح مسلم: رقم 5030