کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 62
غلام رسول سعیدی صاحب لکھتے ہیں: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے یہ خوف نہیں ہے کہ تم میرے بعد مشرک ہوجاؤ گے اس کا معنیٰ یہ ہے کہ مجھے یہ خوف نہیں کہ تم مجموعی طور پر مشرک ہوجاؤ گے، اگرچہ بعض مسلمان مشرک ہوگئے۔‘‘[1] صحیح بخاری کے شارحین:حافظ ابن حجر عسقلانی، علامہ بدرالدین عینی حنفی اوراحمد بن محمد قسطلانی رحمۃ اللہ علیہم نے بھی اس سے یہی مفہوم مراد لیا ہے۔[2] یہ تواس کا صحیح مفہوم ہوا۔ لیکن روزنامہ پاکستان کے مضمون نگار کے مطابق ’’ مذکورہ حدیث کو شرک کے خاتمے پر دلیل تسلیم کرلیا جائے تو پھر اسی طرح کی احادیث کی بنا پر اُمت سے فقر و فاقے کے خاتمے کا بھی دعویٰ کرنا چاہیے جیساکہ صحیح بخاری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : (( فو الله لا الفقر أخشٰی علیکم)) [3] ’’اللہ کی قسم میں تم پر فقر و فاقہ سے نہیں ڈرتا۔‘‘ لیکن اُمتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کےلوگوں میں آج فقروفاقہ کی جو صورتحال ہے، ہر آدمی اس سے بخوبی واقف ہے جس سے معلوم ہوا کہ شر ک کے وجود والی حدیث کا جو مفہوم آج کچھ لوگ جو پیش کررہے ہیں، وہ درست نہیں۔‘‘ تبصرہ : احادیث کا غلط مفہوم لے کر اُمت کو شرک پر جری کرنا اور شرک جیسے ناسور سے بے پروا کرنے کی کوشش کرنا اُمت کی خیر خواہی نہیں بلکہ ملّت دشمنی ہے۔يوں بھی عقائد کے بارے میں احادیث آحاد سے استدلال کرنا کم از کم بریلوی مکتبِ فکر کو روا نہیں کیونکہ مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلوی نے تو عقائد کے معاملے میں لکھا ہے کہ عقائد میں حدیث احاد اگرچہ صحیح ہوں کافی نہیں، مزید شرح عقائد نسفی کے حوالے سے رقم طراز ہیں: ’’حدیث احاد اگرچہ تمام شرائط صحت کی جامع ہوں ظن ہی کا فائدہ دیتی ہیں اور معاملہ اعتقاد میں ظنّیات کا کچھ اعتبار نہیں۔‘‘[4] اس پیمانہ پرمضمون نگار کی پیش کردہ روایات کا پورا اُترنا تو دور کی بات ہے، اُنہوں نے تو
[1] نعمۃ الباری : 3 /514 [2] فتح الباری:3/2111، عمدۃ القاری:8/157، ارشاد الباری:2/440 [3] صحیح بخاری:3158 [4] فتاویٰ رضویہ:5/477