کتاب: محدث شمارہ 356 - صفحہ 61
بت پرستی سے تشبیہ دی تھی۔ جیساکہ ابوواقد لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’بلا شبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حنین کی طرف نکلے تو ایک بیری کے درخت کے پاس سے گزرے جسے ذات أنواط کہا جاتا تھا، مشرکین اس پر اسلحہ لٹکاتے تھے۔چند نومسلم لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ:’’جس طرح ان کے لیے ذات انواط ہے ہمارے لیے بھی اسی قسم کا ذات انواط بنا دیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( الله أکبر هٰذا کما قالت بنو إسرائیل اجعل لنا إلهٰا کما لهم اٰلهة لترکبن سنن من کان قبلکم)) [1] ’’اللہ اکبر! یہ تو اسی طرح ہے جیسے بنی اسرائیل نے کہا تھا کہ ہمارے لیے بھی ایک معبود مقرر کردیں جیسے اُن کے معبود ہیں ، واقعی تم پہلے لوگوں کے طریقوں پر چلو گے۔‘‘ آج بھی اُمت میں آپ کو اس کی مثالیں ملیں گی کہ مزاروں پر موجود درختوں کے ساتھ اسی تبرک کا معاملہ کرتے ہوئے دھاگے، کپڑے اور سامان باندھے جاتے ہیں اور اُنہیں مختلف حاجات براری کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔جیسا کہ سلطان باہو کے مزار پر موجود بیری کے درخت کو اولادکےحصول کے لیےمتبرک سمجھنا بلکہ چکر گن کر طواف کرنا وغیرہ کوئی پوشیدہ امر نہیں۔ کیا اس کو بھی صاحب مضمون ’لذتِ توحید‘ سے گردانیں گے اورعقیدہ توحید کی پہرہ داری سے تعبیر کریں گے؟ 2. اس میں کوئی شک نہیں کہ عقیدہ توحید یقیناً اُمت میں باقی ہے۔ جو لوگ خالص توحید پر قائم ہیں، وہی خالص اسلامی عقیدے کے بھی وارث ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ بعض لوگوں میں شرک بھی پایا جاتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ساری اُمت شرک میں مبتلا نہیں ہو سکتی بلکہ کچھ لوگ ہر دور میں توحیدِ خالص کے علم بردار ہوں گے۔ اسی حقیقت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں واضح کیا تھا: ’’مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دی گئی ہیں اوراللہ کی قسم! بے شک مجھے یہ خطرہ نہیں ہے کہ تم [سب] میرے بعد مشرک ہوجاؤ گے لیکن مجھے تم پر یہ خطرہ ہے کہ تم دنیا میں رغبت کرو گے۔‘‘ [2]
[1] مسندحمیدی:848،ترمذی :2180،مسنداحمد:5/21،مصنف عبدالرزاق:11/369،ابن حبان:9/248، 6667 [2] صحیح بخاری:1344، صحیح مسلم :2296